Jump to content
CooLYar Forums - A Friendly Community by CooLYar

i love sahabah

Members
  • Content count

    82
  • Joined

  • Last visited

  • Days Won

    4

i love sahabah last won the day on October 14 2014

i love sahabah had the most liked content!

Community Reputation

14 Good

About i love sahabah

  • Rank
    Junior Member
  1. i love sahabah

    معارفِ توب&#1729

    امیر المجاہدین حفظہ اللہ تعالیٰ کی نئی تالیف " اِلیٰ مغفرۃ" سے چند مفید اقتباسات استغفار پر مشتمل بڑی جامع قرآنی دعا رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْــصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہمیں نہ پکڑ۔ اے ہمارے رب! ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا۔ اے ہمارے رب! اور ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جسکی ہم میں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرما۔ اور ہمیں بخش دے اور ہم پہ رحم فرما۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے،کافروں کے مقابلے میں تو ہماری مدد فرما۔ اہل تقویٰ کی دعا ء رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؀ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ہیں پس ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔ اے کاش میری قوم جان لیتی قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ط قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ؀ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ؀ وہ صالح مرد جو اپنی قوم کو سمجھانے کے لئے دوڑتا ہوا آیا کہ اے میری قوم! رسولوں کی بات مانو اور انہیں نہ جھٹلاؤ…قوم نے اس کی بات نہ سنی بلکہ اسے بے دردی سے قتل کردیا،جیسے ہی اس کو شہید کیا گیا حکم آیا کہ فورا جنت میں داخل ہو جاؤ… جیسا کہ احادیث میں آیا ہے شہدا ءکی ارواح قیامت سے پہلے ہی جنت میں داخل ہو جاتی ہیں… جنت میں پہنچ کر اس نے اللہ تعالی کی صفت مغفرت کا مشاہدہ کیا کہ کس طرح سے گناہوں کو معاف فرما دیا اور کس طرح سے ایسا اکرام و اعزاز عطاء فرمایا تو کہنے لگا! ہائے میری قوم کو میرا یہ حال معلوم ہوجائے تو وہ سب ایمان لے آئیں… ترجمہاس سے) کہا گیا جنت میں داخل ہوجا اس نے کہا اے کاش: میری قوم بھی جان لیتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کردیا… اللہ تعالی کا عظیم الشان رحمت والا اعلان قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ؀ وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ؀ کافروں،مشرکوں،منافقوں اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی کا عظیم الشان رحمت والا اعلان… ترجمہ:کہہ دیجیئے!اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہو بیشک اللہ تعالی سب گناہ بخشتا ہے بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اس کا حکم مانو ،اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہیں مدد بھی نہ مل سکے گی… یعنی سب کے لئے توبہ کی عمومی سہولت اور دعوت … یہ آیت ارحم الراحمین کی بے پناہ رحمت اور عفو و درگزر کی عظیم شان کا اعلان کرتی ہے اور سخت سے سخت مایوس العلاج مریضوں کے لئے شفا ء کا نسخہ ہے اس آیت کو سننے کے بعد کسی کے لئے اللہ تعالی سے نااُمید ہونے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی…خواہ وہ کتنا بڑا کافر،مشرک یا کتنا بڑا فاسق، فاجر، بدمعاش اور گناہ گار ہو… آؤ اور موت سے پہلے توبہ کرو،اللہ تعالی کی طرف رجوع کرو تمہارے تمام گناہ معاف فرما دئیے جائیں گے… کلام برکت: جب اللہ تعالی نے اسلام کو غالب کیا جوکفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے کہ لاریب (یعنی یقیناً) اس طرف اللہ ہے…یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر پچھتائے لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو گی، دشمنی کی،لڑائیاں لڑے اور کتنے خدا پرستوں کے خون کئے… تب اللہ نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی توبہ اللہ قبول نہ کرے،ناامید مت ہو، توبہ کرو اور رجوع ہو ،بخشے جاؤ گے،مگر جب سر پر عذاب آیا یا موت نظر آنے لگی اس وقت کی توبہ قبول نہیں… استغفار کا بہترین وقت وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ؀ استغفار کا بہترین وقت ،تہجد یعنی سحری کاوقت ہے … اس وقت استغفار کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے … بے شک سحری کے وقت کا استغفار بہت مقبول اور بڑی غنیمت ہے… وہ افراد جن کے ایمان اور تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایااور ان کو جنت عطاء فرمائی ان کی ایک صفت یہ بیان فرمائی … وبالاسحار ھم یستغفرون وہ رات کے آخری پہر یعنی سحری کے وقت اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتے تھے …یعنی سحری کے مبارک وقت میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ سے صاف کرلیا کرتے تھے … رات کو اکثر حصہ عبادت میں گزارنے کے باوجود ان میں تکبر اور عجب پیدا نہ ہوتا بلکہ وہ جس قدر عبادت کرتے اس سے ان کی شان بندگی بڑھ جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت کی التجاء کرتے ہیں … اللھم اجعلنا منھم معاف کرو ،معافی پاؤ…بخشو،بخشے جاؤ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ج وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ؀ ترجمہ:اے ایمان والوبے شک تمہاری بیویوں اوراولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، پس ان سے بچتے رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا،نہایت رحم والا ہے: یعنی اہل اور اولاداگر آخرت کی ناکامی کا ذریعہ بن رہے ہوں …یاان کو خواہش اور اصرار ہوکہ تم جہاد اور ہجرت سے رکے رہو…یاوہ تمہیں دنیا میں ایساپھنسا دیں کہ تم دین اور آخرت سے غافل ہوجاؤ تو ایسے اہل اور اولاد تمہارے دشمن ہیں …پس تم ان کے شر سے بچتے رہویعنی ان کی غلط باتیں نہ مانو…ہاں تدبیر یہ کرو کہ …اپنا دین بھی بچاؤ اور ان کے ساتھ میں معافی اور درگزر کا رویہ رکھو…اس میں بے شمار فائدے ہیں … اور ان اچھے اخلاق پر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربانی فرمائے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف فرمائے گاوہ غفور رحیم ہے… آیت مبارکہ میں بعض کا لفظ آیاہے…جس سے معلوم ہوا کہ سب بیویاں او راولادیں ’’دشمن‘‘ نہیں ہوتیں … بہت سی بیویاں اور اولادیں اچھی بھی ہوتی ہیں …دین اور آخرت کا فائدہ پہنچانے والی…دوسری بات یہ کہ معاف کرنا،درگزرکرنا اس حد تک ہو جس کی شریعت نے اجازت دی ہے… بہترین دعاء کیا ہے؟ حضرت علیh سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایابہترین دعاء استغفار کرنااور بہترین عبادت لاالہ الا اللہ (پڑھنا )ہے۔(تاریخ حاکم) انسان کی دینی ودنیوی ضرورتیں بے شمار ہیں، گھر، مال، دولت، بیوی، بچے، سکون، خوشی، صحت، عقل، فہم وفراست، توفیق عبادات وغیرہ وغیرہ لیکن جس چیز کی انسان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے گناہوں کی مغفرت ،اللہ کے غضب اورجہنم سے بچنا ’’عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہْ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’خَیْرُ الدُّعَائِ الاِسْتِغْفَارُ وَخَیْرُ الْعِبَادَۃِ قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘ (اخرجہ الحاکم فی تاریخہ کذا فی الکنز، وفی الجامع الصغیر للسیوطی وصححہ ھو والمناوی) گناہوں کے تیرہ نقصانات اﷲ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے… اس وقت سچے دل سے استغفار کی بے حد ضرورت ہے… گناہ … ایمان والوں کو اس دنیا میںبھی نقصان اور تکلیف پہنچاسکتے ہیں… حضرت علی h کی ایک پرکیف دعاء سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کے فوری طور پر درج ذیل نقصانات بھی ہوسکتے ہیں: ۱ کچھ گناہ ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے غصے اور انتقام کو لے آتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ معاف فرما۔ ٢ کچھ گناہ ایسے ہیں جو انسان سے اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں… یااﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٣کچھ گناہ ایسے ہیں جو انسان کو حسرت اور پچھتاوے میں ڈال دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٤ کچھ گناہ ایسے ہیں جو آسمان سے اترنے والی خیر، بھلائی اور روزی کو انسان سے روک دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٥ کچھ گناہ ایسے ہیں جو بلاؤں اور مصیبتوں کے نازل ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٦ کچھ گناہ ایسے ہیں جو انسان میں موجود گناہوں سے بچنے کی صلاحیت کو ختم کردیتے ہیں… اور اس کے حفاظتی نظام کو توڑ دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٧ کچھ گناہ ایسے ہیں جو تباہی کو جلد لے آتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٨ کچھ گناہ ایسے ہیں جو انسان کے دشمنوں کو بڑھا دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ٩ کچھ گناہ ایسے ہیں جو انسان کو امید سے کاٹ کر ناامیدی کے خوفناک گڑھے میں دھکیل دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ١٠کچھ گناہ ایسے ہیں جو دعاؤں کی قبولیت کوروک دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ١١کچھ گناہ ایسے ہیں جو بارش کو روک دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ١٢کچھ گناہ ایسے ہیں جو ہوا کو گھٹا دیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما۔ ١٣کچھ گناہ ایسے ہیں جو انسان کو بے پردہ کردیتے ہیں… یعنی اس پر پڑے ہوئے رحمت، حفاظت اور عزت کے پردوں کو ہٹادیتے ہیں… یا اﷲ ہمارے ایسے گناہ بھی معاف فرما… گویا کہ… گناہوں کی تیرہ قسمیں بیان فرمائی ہیں… اﷲ تعالیٰ ہماری حالت پررحم فرمائے… ایسا لگتا ہے کہ … ہم اجتماعی طور پر ان تمام قسم کے گناہوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اس لیے ان گناہوں کے کڑوے پھل بھی چکھ رہے ہیں… ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم باریک بینی کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں… اور سچے دل کے ساتھ تمام گناہوں سے استغفار کریں… اور ان گناہوں کو چھوڑ دیں… گناہوں کے دنیوی نقصانات گناہ کہتے ہیں … اللہ تعالی کی نافرمانی کو …گناہوں سے توبہ اور استغفار میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے … گناہوں کا اصل عذاب تو مرنے کے بعد ہے مگر گناہوں کی نحوست دنیا میں بھی ظاہرہو جاتی ہے… امام غزالی m لکھتے ہیں: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گناہوں کی نحوست دنیا ہی میں آدمی پر آتی ہے …یہاں تک کہ بعض اوقات گناہو ں کی شامت سے روزی تنگ ہوجاتی ہے … کبھی گناہوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے قدر ومنزلت گرجاتی ہے اور دشمن غالب آجاتے ہیں…حدیث شریف میں ہے بندہ گناہ کرنے کے باعث رزق سے محروم ہوجاتا ہے…اور حضرت ابن مسعود رh فرماتے ہیں کہ میری دانست میں گناہ کے باعث آدمی علم بھول جاتا ہے اور یہی مراد حدیث میں ہے کہ جو شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اس کی عقل اس سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور پھر کبھی اس کے پاس نہیں آتی…اور بعض اکابر کا قول ہے کہ لعنت منہ کے سیاہ ہونے اور مال کے کم ہونے کا نام نہیں بلکہ لعنت یہ ہے کہ آدمی ایک گناہ سے نکل کر دوسرے اسی جیسے یا اس سے زیادہ بڑے گناہ میں مبتلا ہو…یعنی گناہ کی ایک سزا یہ ہے کہ ایک گناہ کی وجہ سے انسان دوسرے گناہ میں جاگرتا ہے …حضرت فضیل m نے فرمایاکہ آدمی پر جو مصیبتیں یا لوگوں کے ستم آئیں تو جانے کہ سب میرے گناہو ںکی بدولت ہے…اور بعض اکابر کا قول ہے اگر میرے گدھے کی عادت بھی بگڑ جائے تو میں یہی جانوں کہ میری ہی کسی غلطی کی وجہ سے ہے… ایک صوفی بزرگ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک خوبصورت لڑکے کو دیکھا اور پھر دیکھتے ہی رہے ایک بزرگ نے آکر ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا اس(بدنظری)کی سزا تمہیں چند دن بعد ملے گی چنانچہ تیس سال بعد سزا ملی…حضرت ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ احتلام ہونا بھی ایک سزا ہے اور فرمایا کہ کسی آدمی کو جو نماز جماعت سے نہیں ملتی تو یہ کسی گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے…ایک حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب بندہ اپنی شہوت کو میری طاعت پر مقدم سمجھتا ہے تو اس کی ادنی حالت یہ ہے کہ اس کو (اللہ تعالی ) اپنی مزہ دار مناجات سے محروم کردیتا ہے…(خلاصہ احیاء العلوم غزالی ) اہل طاعت پر جو مصیبت آتی ہے تو اس سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور اس پر صبر کرنے سے ان کے درجات بڑھتے ہیں…(احیاء العلوم) ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن مجید میں دو آیتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی بندے نے گناہ کیا اور پھر ان دو آیات کو پڑھا اور اﷲ تعالیٰ سے استغفار کیا تو اسے (ضرور) ’’مغفرت‘‘ عطاء کر دی جاتی ہے… یعنی اُس کا گناہ معاف کر دیا جاتا ہے …پہلی آیت تو وہی سورۃ آل عمران(۱۳۵) اور دوسری آیت سورۃ النساء(۱۱۰) وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓأً اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِاللّٰہَ یَجِدِاللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ترجمہ: اور جو کوئی بُرائی کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اﷲ تعالیٰ سے استغفار کرے… (یعنی اﷲ تعالیٰ سے مغفرت اور معافی مانگے… تووہ اﷲ تعالیٰ کوبخشنے والا مہربان پائے گا…‘‘ سبحان اﷲ!… کتنا آسان وظیفہ ہے… آج ہی کوشش کر کے دونوں آیات کو ترجمے کے ساتھ یاد کر لیں… جب بھی گناہ اور غلطی ہووضو کر کے نماز ادا کرکے… ان دو آیات کو توجہ سے پڑھیں اور پھر سچے دل سے استغفار کریں… اور اﷲ تعالیٰ سے مغفرت اور معافی کی پکی امید رکھیں… استغفارکے بیس فائدے ابن الجوزی ؒ فرماتے ہیں: ’’شیطان کہتاہے میںنے اولادآدم کو گناہوں سے ہلاک کیا…اورانہوںنے مجھے ’’استغفار‘‘اور ’’لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘سے ہلاک کیا… میرے عزیزبھائیو!کثرت استغفارمیںشیطان ملعون کی ہلاکت ہے…حسن بصری m فرماتے ہیں…استغفارکی کثرت کرواپنے گھروںمیں،اپنے دسترخوانوںپراوراپنے راستوںمیںاوراپنی مجلسوںمیں…کیامعلوم کہ کس وقت مغفرت نازل ہوجائے؟۔۔استغفارکے بے شمارفوائدہیںمثلاً… ١ یہ اللہ تعالیٰ کاتاکیدی حکم ہے… ٢ یہ رسول پاکﷺ کاپیاراعمل ہے… ٣ یہ گناہوںکی مغفرت کاذریعہ ہے… ٤ اس سے جنت ملتی ہے… ٥ یہ دل کی سیاہی کودورکرتاہے… ٦ اس سے قلبی سکون اوراطمینان نصیب ہوتاہے… ٧ اس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے… ٨ یہ قبرکابہترین پڑوسی ہے… ٩ اس سے ہرطرح کی روحانی اورجسمانی قوت ملتی ہے… ١٠یہ رزق حلال میں بے پناہ وسعت کاذریعہ ہے… ١١یہ نفس کوغم،پریشانی،مایوسی،شہوت،وساوس اورمیل کچیل سے پاک کرتاہے… ١٢ یہ صالح اولادکاذریعہ ہے… ١٣ یہ ہربیماری کاعلاج ہے… ١٤ اس سے انسان کودنیاکی بہترین زندگی نصیب ہوتی ہے… ١٥یہ مقبول اعمال کی حفاظت ہے… ١٦اس سے بلائیں،مصیبتیںدورہوتی ہیں… ١٧ اس کی برکت سے انسان کواپنااصل مقام اورفضیلت نصیب ہوتی ہے… ١٨اس سے مفیدبارشیںبرستی ہیں… ١٩اس سے شرح صدرہوتاہے… ٢٠سب سے اہم فضیلت کہ یہ بندے کاتعلق اللہ پاک کیساتھ ٹھیک کرتاہے… اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الَّذِیْ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ… میرے بھائیو!آج کسی وقت کسی مسجدیاخالی جگہ کی طرف نکل جاؤ…راستے میںروتے جاؤ اور کہتے جاؤ…اے میرے محبوب رب میںمعافی مانگنے آرہا ہوں… توبہ کرنے آ رہا ہوں… پھر وہاں پہنچ کراپنے ہرگناہ کی معافی مانگو…ایمان کی کمزوری،فرائض کی سستی، نفاق، غیبت، حسد، بغض، بے حیائی، سستی، غفلت، حب دنیا، ذلت، رسوائی، بے شمارگناہ… روتے جاؤمعافی مانگتے جاؤ… یہاں تک کہ رحمت کانزول محسوس ہو…پھردل پرجوبیتے کسی کونہ بتاؤ…کبھی نہ بتائو…ارے مالک کے سامنے حاضر ہوناہے…پوری دنیامیںاسلام کے غلبے کی محنت کرنی ہے…گناہوںسے ہلکے ہوں گے توکچھ کام بنے گا… گناہوں کی تشہیر نہ کریں حضرت سیّدہ مطہرہ اماں عائشہ صدیقہk کی خدمت میں ایک عورت آئی …اور مسئلہ پوچھنے کے انداز میں اپنے گناہ کا تذکرہ کر گئی…شاید کسی نے احرام کی حالت میں اس کی پنڈلی کو پکڑا یا چھوا تھا…اس نے جیسے ہی یہ بات بتائی…حضرت اماں عائشہ صدیقہ k نے فوراً چہرہ پھیر لیا اور فرمایا: ’’رک جاؤ، رک جاؤ، رک جاؤ‘‘ اور پھر ارشاد فرمایا: اے ایمان والی عورتو! اگر تم میں سے کسی سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ دوسروں کو نہ بتائے… بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرے … یاد رکھو! بندے عار میں ڈالتے ہیں بدل نہیں سکتے …جبکہ اللہ تعالیٰ بدلتا ہے…عار میں نہیں ڈالتا …یعنی تم اپنے گناہ لوگوں کو بتاؤ گی تو لوگ تمہارے اس گناہ کو مٹا نہیں سکتے…نہ تمہاری حالت کو تبدیل کر سکتے ہیں… اور نہ گناہ کے شر اور نقصانات سے تمہیں بچا سکتے ہیں…ہاں البتہ وہ تمہیں عار اور شرمندگی میں ضرور ڈال سکتے ہیں… جب بھی اُن کو موقع ملا وہ تمہیں اس گناہ کی وجہ سے رسوائی،شرمندگی اور بدنامی میں مبتلا کر سکتے ہیں …جبکہ اللہ تعالیٰ نہ شرمندہ کرتے ہیں،نہ بدنام فرماتے ہیں اور نہ عار دلاتے ہیں… بلکہ وہ تمہاری بری حالت کو اچھی حالت میں تبدیل فرما دیتے ہیں …وہ تمہیں گناہ کے نقصانات سے بچا لیتے ہیں …وہ ’’العفو‘‘ ہیں…معاف فرمانے والے… کہ اس گناہ کو مٹا دیتے ہیں… اور ’’الغفور‘‘ ہیں کہ اس گناہ کو چھپا لیتے ہیں اور بعض اوقات تو ایسی رحمت اور تبدیلی فرماتے ہیں کہ… خود گناہگار بندے کو بھی…اپنا گناہ یاد نہیں رہتا…گویا کہ گناہ کا ہر طرف سے نام و نشان ہی مٹ گیا…نہ وہ نامۂ اعمال میں باقی رہا، نہ وہ لکھنے والے فرشتے کو یاد رہا…نہ وہ اُس زمین کو یاد رہا جس پر وہ ہوا تھا …نہ وہ اُن اعضاء کو یاد رہا جن سے وہ گناہ کیا تھا … اور نہ خود گناہگار بندے کو یاد رہا… ایسا فضل اور ایسی مغفرت اور کون کر سکتا ہے؟…زندگی کے سانس چل رہے ہیں… سورج مشرق سے طلوع ہو رہا ہے…توبہ کا دروازہ کھلا ہے…بھائیو! کثرت استغفار،بہت استغفار، سچا استغفار… اچھی توبہ،خالص توبہ،سچی توبہ ،پکی توبہ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ نَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ،نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ…
  2. i love sahabah

    Mil Gye Khaak Mai Khaaky Banany Waly

    مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے رنگ و نور ۔۔۔سعدی کے قلم سے اللہ تعالیٰ کا سلام اور بے شمار رحمتیں…اُن شہداء کرام پر جنہوں نے عشق رسول ﷺ کا حق اَدا کر دیا…پیرس میں اِسلامی غیرت اور عشقِ محمد ﷺ کی شمع اپنی جان سے روشن کرنے والو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ قلم ہاتھ سے چھوٹتا ہے سبحان اللہ ! کیسا تاریخی واقعہ ہے اور وہ تینوں شہداء کتنے عظیم ہیں…سچ کہتا ہوں جوش ،جذبے اور عقیدت سے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور قلم ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے…گستاخانہ خانے بنانے والوں پر تڑ،تڑ گولیاں برسانے والے…بڑا اونچا مقام لُوٹ گئے… جس کے دل میں بھی ایک ذرہ برابر عشق رسول ﷺ ہو گا وہ ضرور…ان شہداء کرام کو خراج تحسین پیش کرے گا…ان کے لئے دعاء مانگنا اپنی سعادت سمجھے گا…مجھے تو اس ولولے اور خوشی کے موقع پر ایک شعر بھی سوجھا ہے… میرے آقا کی محبت کا یہ منظر دیکھو مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے من لی بھذا الخبیث؟ ہم جب اپنے آقا مدنی ﷺ کی زندہ سیرت پڑھتے ہیں تو اس میں ہمیں یہ اَلفاظ ملتے ہیں: ’’ من لی بھذا الخبیث‘‘ کون ہے؟کون ہے، جو میرے لئے… یعنی محض میری عزت و حرمت کے لئے اس خبیث کو ختم کر دے…کون ہے اس خبیث کے مقابلے میں میری نصرت کرنے والا؟…یہ ۲ھ کا واقعہ ہے…ایک یہودی تھا ’’ابو عفک‘‘ … بہت بڈھا… بہت ناپاک اور بہت منہ پھٹ…یعنی اس زمانے کا ’’چارلی ایبڈو‘‘…وہ حضرت آقا مدنیﷺ کی گستاخی میں اَشعار بکتا تھا…گویا کہ اللہ تعالیٰ کو گالیاں بکتا تھا…حضور اقدس ﷺ کی گستاخی …دراصل اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے…حضور اقدس ﷺ کی گستاخی…ہزاروں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ خطرناک جرم ہے…کیونکہ یہ جرم انسانوں کے لئے جہنم اور ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی کے دروازے کھولتا ہے… حضور اقدس ﷺ کی شان اَقدس میں گستاخی پورے پورے شہروں کو آبادیوں سمیت جلا دینے سے بھی زیادہ مہلک اور نقصان دِہ گناہ ہے…یہ گناہ ایک ہستی کے خلاف نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے خلاف ہے… ابو عفک یہودی کی گستاخی جب حد سے گذر گئی تو حضرت آقا مدنیﷺ نے انسانیت کی حفاظت کے لئے نہایت درد کے ساتھ فرمایا: ’’ من لی بھذا الخبیث‘‘ کون ہے میرا مددگار،اس خبیث کے بارے میں؟ سبحان اللہ ! سعادت کا قرعہ حضرت سیدنا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ کے حق میں نکلا…انہوں نے حضرت آقا مدنی ﷺ کے اَلفاظ مبارک سنے تو تڑپ اُٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! میں نے پہلے ہی منت مانی ہوئی ہے کہ ’’ابو عفک ‘‘ کو قتل کر دوں گا یا خود مر جاؤں گا… پھر فوراً تلوار لے کر نکلے اور اس ظالم ،موذی،کینسر، ایڈز، ایبولا کو ختم کر دیا… چارلی ایبڈو رسالے نے جب حضور اقدس ﷺ کی شان عالی مقام کی گستاخی کا ارتکاب کیا…کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر خنجر چلایا… احتجاج کے باوجود اَڑیل گدھوں کی طرح اپنی ضد پر اَڑے رہے…اور اپنی سکیورٹی پر ناز کرتے ہوئے اپنی گستاخی پر قائم رہے تو میں سوچتا ہوں…گنبد خضراء سے آواز آتی ہو گی… ’’ من لی بھذا الخبیث‘‘ کون ہے؟ کون ہے،میرا عاشق،میرا جانباز اس خبیث رسالے کے مقابلے میں؟ آہ! چار سال تک یہ آواز آتی رہی…ہم مسلمان روتے رہے، بلکتے رہے، شرم میں ڈوبتے رہے…کئی دیوانے چاقو چھریاں لے کر روانہ بھی ہوئے مگر پکڑے گئے یا مارے گئے… کئی دیوانے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر روئے بھی… ہر ایک چاہتا تھا کہ پکار کر کہے: انایارسول اللّٰہ،انایارسول اللّٰہ میں ہوں، میں ہوں…اے اللہ کے رسول! آپ کی عزت و حرمت کا بدلہ لینے والا… مگر قسمت جاگی تو شریف اور سعید کی…وہ مکمل تیاری کے ساتھ اپنے ہدف پر پہنچے اور ایسی جنگ لڑی کہ آسمان بھی جھک جھک کر دیکھتا اور سلام کرتا ہو گا… چارلی ایبڈو کا غرور اور گستاخی خاک میں مل گئی…کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر شفاء کا مرہم لگا…سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم … دنیا نے دیکھ لیا کہ اسلام کی گود ابھی بانجھ نہیں ہوئی…اور حضرت آقا مدنی ﷺ کی محبت کا سورج آج بھی…الحمد للہ نصف النہار پر ہے… میرے آقا کی محبت کا یہ منظر دیکھو مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے انصارِ محمد ﷺ ہم جب اپنے آقا ﷺ کی سیرت مبارکہ پڑھتے ہیں تو اس میں ایک ایسا خوش نصیب ،خوش بخت، عالی مقام اور قابل رشک شخص بھی نظر آتا ہے جو آنکھوں سے معذور تھا مگر …اس کے دل کی آنکھیں روشن تھیں… اُن کا اسم گرامی تھا…حضرت سیدنا عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ سب پڑھنے والے جھوم کر والہانہ دعا کریں: رضی اللہ عنہ، رضی اللہ عنہ، رضی اللہ عنہ واَرضاہ مدینہ منورہ میں ایک بدبخت عورت تھی… عصماء یہودیہ… یہ بھی حضورِ اقدس ﷺ کی شان مبارک میں گستاخانہ اَشعار بکتی تھی…حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ اس نجاست کو ضرور ختم فرمائیں گے…اور پھر رمضان المبارک کی ایک رات انہوں نے یہ سعادت حاصل کر لی… ارے ! یہ تو ایسی عظیم عبادت اور عظیم سعادت ہے کہ…کوئی شخص سو سال تک کعبہ شریف میں عبادت کرتا رہے اور نہ تھکے…اور کوئی شخص سو سال تک مسجد نبوی شریف میں اِعتکاف کرے اور ہر نماز پہلی صف میں اَدا کرے…اور روز لاکھوں بار مواجہہ شریف پر… درودشریف پیش کرے…تب بھی وہ اس عاشقِ رسول کے برابر تو کیا قریب بھی نہیں ہو سکتا …جو کسی گستاخِ رسول کا خاتمہ کر دے… حضرت کاندھلویؒ لکھتے ہیں: ’’ پیغمبر برحق ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا قتل اَعظمِ قربات اور اَفضل عبادت میں سے ہے‘‘ حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے جب یہ عظیم کارنامہ سراَنجام دے دیا تو آپ ﷺ بے حد مسرور ہوئے اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اذا احببتم ان تنظروا الی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی‘‘ ’’اگر آپ لوگ ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو‘‘ اب ایک اور بہت مزے کی بات سنیں… عشقِ رسول ﷺ تک پہنچ جانا کتنی بڑی سعادت ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ…حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ ’’نابینا‘‘ تھے… لوگ انہیں ’’اَعمیٰ‘‘ یعنی نابینا کہتے تھے…آپ ﷺ نے پابندی لگا دی کہ اِن کو اَعمیٰ یعنی نابینا نہ کہو یہ تو ’’بصیر‘‘ یعنی خوب دیکھنے والے ہیں… سبحان اللّٰہ وبحمدہ،سبحان اللّٰہ العظیم ہاں ! اصل اَعمیٰ یعنی نابینا تو وہ ہیں جو … حضورِ اَقدس ﷺ کے مقام کو نہیں دیکھ سکتے… وہ اَندھے جو اپنی آنکھوں سے دنیا بھر کی طاقتوں کو دیکھتے ہیں… دنیا بھر کے گناہوں کو دیکھتے ہیں…مگر کائنات کی سب سے روشن ہستی کو نہیں پہچانتے… ہاں وہ اندھے ہیں جنہیں پاکستان میں ناموس رسالت کا قانون بُرا لگتا ہے… ہاں وہ اَندھے ہیں جو گستاخانِ رسول کا تحفظ کرتے ہیں… اور عاشقانِ رسول ﷺ کو نعوذ باللہ مجرم اور دہشت گرد سمجھتے ہیں… اَرے وہ آنکھیں کس کام کی جو جمالِ محمد ﷺ کو نہ دیکھ سکیں… جو شانِ محمد ﷺ کا اِدراک نہ کر سکیں… سلام ہو! ان گرم خون نوجوانوں کو جنہوں نے ہمارے زمانے کی لاج رکھ لی… اور خاکے والوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا… ہاں ! وہ اللہ تعالیٰ کے ’’اَنصار ‘‘ ہیں… ہاں ! وہ آقا مدنی ﷺ کے ’’اَنصار ‘‘ ہیں… دنیا لاکھ اُن کی مذمت کرے… ہم اُن سے محبت رکھتے ہیں…اُن کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں… اگر اُن کی تعریف کرنا جرم ہے…تو ایسا جرم بھی سعادت… اگر میں شاعر ہوتا تو آج ایک پورا قصیدہ…ان سچے جانباز عاشقوں کی شان میں لکھ دیتا…فی الحال تو…میرا دل ان کے ساتھ خوشی کا رقص کر رہا ہے… بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں بصد سامان رُسوائی سربازار می رقصم جو ہونا ہے، ہوتا رہے یورپ والے بڑے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں…ہر ملک اپنی سیکیورٹی سخت کر رہا ہے… یہ بیوقوف اتنا نہیں سوچتے کہ نائن الیون کے بعد سے تم سب یہی کچھ تو کر رہے ہو… مار رہے ہو،پکڑ رہے ہو، بمباری کر رہے ہو،…پھانسیاں دے رہے ہو…سیکیورٹی سخت کر رہے ہو…دھمکیاں دے رہے ہو،ڈرا رہے ہو… مگر تمہارے ان تمام اِقدامات کا کیا نتیجہ نکلا؟… سوچو، سوچو! کہ جہاد کمزور ہوا یا طاقتور… قتال فی سبیل اللہ محدود ہوا یا وسیع؟… اِسلام کی خاطر لڑنے والے کم ہوئے یا زیادہ؟… اب تم مزید بھی یہی اِقدامات کرو گے تو نتیجہ پہلے جیسا ہی نکلے گا…جب تم گستاخانہ خاکے بناؤ گے تو کیا حضرت محمد ﷺ کے دیوانے عاشق…ہاتھ میں چوڑیاں پہن کر بیٹھے رہیں گے؟… فرانس کو بڑا شوق ہے بمباری کا … افغانستان ہو یا لیبیا یا عراق…اس کے میراج طیارے ہر جگہ سب سے پہلے مسلمانوں پر بم برسانے پہنچ جاتے ہیں… تم بم برساؤ گے تو کیا مدینہ منورہ کے بیٹے تم پر پھول نچھاور کرتے رہیں گے؟… اَرے مان لو! کہ اسلام ایک حقیقت ہے… جہاد ایک حقیقت ہے… اور حضرت محمد ﷺ کی محبت ایک بہت بڑی حقیقت ہے… تم جس قدر جنگ کی آگ بھڑکاتے جاؤ گے…سختیاں کرتے جاؤ گے…مسلمان اسی قدر مضبوط اور جنگجو ہوتے چلے جائیں گے…کل جب تم نے خاکے بنائے تو ہم نے کہا تھا… خاک ہو جائیں گے خاکے بنانے والے اور آج الحمد للہ ہم یہ کہنے کے قابل ہو گئے کہ… مل گئے خاک میں وہ خاکے بنانے والے یاد رکھو! مسلمان کے لئے موت…کوئی ڈراوے کی چیز نہیں … بلکہ یہ تو وہ حسینہ ہے جس کے اَنگ اَنگ میں لذت اور راحت ہے…مسلمان اپنے دین کا… اپنے اللہ کا اور اپنے رسول ﷺ کا وفادار ہی رہے گا…اِن شاء اللہ… اُسے یہ پرواہ نہیں کہ… کیا ہو گا؟…جو ہوتا ہے، ہوتا رہے…ہمارے لئے کل بھی اَللّٰہ… آج بھی اَللّٰہ… حسبنا اللّٰہ …اَللّٰہ ہی اَللّٰہ …اَللّٰہ ھو اَللّٰہ لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اللہم صل علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ
  3. i love sahabah

    افسانوی ہی&#1585

    طلحہ السیف چار دن قبل ’’غزہ‘‘ میں ایک خاتون اور اس کے نو عمر بچے کا جنازہ تھا۔ ’’غزہ‘‘ میں تو روزانہ درجنوں جنازے ہوتے ہیں مگر یہاں کوئی خاص بات تھی کہ پورا شہر ہی چلا آ رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔یہ سب لوگ رو رہے تھے،شدت جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے اور زبردست نعرے بازی کر رہے تھے،شدید خطرہ تھا کہ اسرائیل اس بے پناہ ہجوم پر اپنے طیاروں کے ذریعے بم گرا دے اور یوں درجنوں اور لوگ شہید ہو جائیں مگر یہ سب اس سے بے پرواہ ہر طرف سے امڈے آ رہے تھے اور یہ سب اس شخص سے اپنی والہانہ عقیدت اور قلبی محبت کا اظہار کر رہے تھے جس کی اہلیہ اور دو بچوں کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا۔ہر شخص کی زبان پر اسی کا نام تھا اور اسی کا تذکرہ… کون ہے وہ؟… وہ شخص جو چند قدم اپنے قدموں پر نہیں چل سکتا مگر اس نے گزشتہ بارہ سال سے اسرائیل کے قدموں کو غزہ سے روک رکھا ہے… وہ شخص خود وہیل چیئر پر ہے لیکن اس نے دنیا کی تیسری سب سے بڑی عسکری طاقت کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا ہے… جس کی صرف ایک آنکھ ہے لیکن وہ سب کچھ اس کی نظر میں ہے جسے چھپانے کے لئے اور محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کا سب سے مہنگا اور سب سے جدید سیکیورٹی سسٹم وضع کیا گیا ہے… جسے بارہ سال سے دنیا نے نہیں دیکھا لیکن اسرائیل کا ہر شہری غزہ سے آنے والے ہر میزائل کے ساتھ اسے دیکھتا ہے… جس نے اپنا نام مٹا رکھا ہے لیکن اسرائیلی اور مغربی میڈیا پر آج کل اسی کے نام کی سب سے زیادہ گونج ہے… جسے قتل کرنے کی کوششوں پر اسرائیل اپنے بقول سب سے زیادہ مال خرچ کر چکا ہے اور تمام ذرائع بروئے کار لا چکا ہے لیکن وہ زندہ ہے اور اس کی زندگی اسرائیل اور یہودیوں کی موت بنتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے سرکاری ترجمان جریدے’’ یدیعوت‘‘ کے الفاظ ہیں ’’وہ‘‘ ہمارا سب سے بڑا خوف ہے، ہماری سب سے بڑی بیماری ہے،وہ سب سے خوفناک ہتھیار ہے،وہ سانپ کا سر ہے،وہ موت کا پیغام ہے اور جب تک وہ زندہ ہے ہمارا وجود خطرے میں ہے … وہ دورحاضر کا ’’ابن بطال‘‘ ہے جس کے نام سے کفار کی مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں۔ فرانسیسی جریدے’’لوموند‘‘ کے مطابق وہ ایک افسانوی ہیرو اور ایک دیومالائی کردار جیسا ہے،شاید آنے والے زمانے میں اس کی بھی اساطیری داستانیں لکھی جائیں۔ایک سایہ جو یہودیوں کو ہمیشہ ڈراتا رہے گا… جی ہاں! وہ ہے ’’محمد الضیف‘‘ حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ کا کمانڈر اعلیٰ… جنہیں شہید کرنے کی یہ چوتھی کوشش ناکام ہوئی مگر ان کی باوفا بیوی اور سات ماہ کے معصوم بیٹے نے جنت کو کوچ کیا۔آج ان کا جنازہ تھا اور غزہ کا ہر شہری اپنے عظیم قائد سے اظہار محبت کے لئے کھنچا چلا آیا،جنہیں اطلاع نہ ہو سکی وہ بعد میں افسوس کرتے دکھائی دیئے… ’’محمد الضیف‘‘ کون ہیں؟… ہمیں اگر طاہر القادری سے فرصت ہوتی تو ہم بھی ان کے بارے میں ضرور جانتے ہوتے جو امت کے حقیقی قائدین ہیں۔لیکن ہماری بد اعمالیوں نے ہمیں ان لوگوں میں الجھا رکھا ہے جن کا کردار پڑھ کر ابکائیاں آتی ہیں۔ایسا شخص ہمارے ملک کے لاکھوں لوگوں کا مقتدا ہے جسے ’’طاہر‘‘ کہیں تو لفظ ’’طہارت‘‘ کا معنی الٹنا پڑتا ہے اور ’’القادری‘‘ کہتے ہوئے اللہ والوں کے ایک پورے عظیم سلسلے کی شان میں گستاخی ہوتی ہے۔بہرحال دفع کیجئے آئیے اس شخص کے تذکرے سے اپنی محفل کو معطر کرتے ہیں جس کا نام ایک پوری قوم کو لڑنے،مرنے اور قربانیاں دینے کا حوصلہ بہم پہنچاتا ہے اور عزائم کو زندہ کرتا ہے… فرانسیسی صحافی’’ ایلین سالون‘‘ نے معروف جریدے ’’لاموند‘‘ میں اس عظیم شخصیت کی سوانح و کردار پر ایک تحریر لکھی ہے۔اس کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔عربی کا ایک مقولہ ہے: الفضل ما شہدت بہ الاعداء ( مرتبہ و مقام وہ ہوتا ہے دشمن بھی جس کی گواہی دے) کے مصداق ایک غیر مسلم کے ان کے بارے میں خیالات ملاحظہ کیجیے: ’’محمد الضیف‘‘ جن کا اصل نام ’’محمد دیَّاب المصری‘‘ہے۔1965؁ء میں خانیونس کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں ’’الاخوان المسلمون‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔90ء کی دہائی میں حماس کے معروف عسکری قائد یحیی عیاش شہید کے ساتھ ملے اور حماس کے عسکری ونگ میں ایک معمولی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔اپنی انتھک محنت اور ذہانت کے سبب کچھ ہی عرصے میں اہم ذمہ داریوں تک پہنچ گئے۔اسرائیل کے انٹیلی جنس ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں 90ء کی دھائی میں ہی علم ہو گیا تھا کہ ’’محمد الضیف‘‘ حماس کے اہم عسکری ذمہ دار بن چکے ہیں لیکن ان کے منظر عام پر نہ آنے اور شہرت سے دور رہنے کی پختہ عادت کی وجہ سے اسرائیلی حکومت انہیں ایک بڑے خطرے کے طور پر نہ بھانپ سکی،اسی دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن تعارف حاصل نہ ہو سکنے کی بنیاد پر تیرہ ماہ بعد اسرائیلی حکومت نے انہیں رہا کر دیا،اگر وہ حقیقت حال سے واقف ہوتے تو ایسا ہرگز نہ کرتے۔اسی طرح 1994؁ء میں انہیں ’’الفتح‘‘ کی فلسطینی اتھارٹی نے بھی قید کیا مگر انہیں بھی چودہ ماہ کے لگ بھگ عرصہ جیل میں رکھ کر انہیں رہا کرنا پڑا کیونکہ وہ مکمل غیر عسکری عنصر کے طور پر جانے گئے تھے۔یحیی عیاش(حماس کے میزائل سازی پروگرام کے بانی) کی شہادت کے بعد ’’صلاح شحادہ‘‘ القسام کے کمانڈر اعلی بنے اور انہوں نے یحیی عیاش کے انتقام کی غرض سے اسرائیل کے اندر فدائی حملوں کا سلسلہ شروع کرایا،اس پوری کارروائی کی نگرانی اور پلاننگ ’’محمد الضیف‘‘ نے کی اور اس وقت وہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر معروف ہوئے اور ان کا نام ہر طرف گونجنے لگا۔فدائی حملوں کا یہ سلسلہ 2006؁ء تک جاری رہا اور اس میں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچا۔جولائی 2002؁ء میں اسرائیل نے ایک فضائی حملے میں ’’صلاح شحادہ‘‘ کو نشانہ بنایا اور وہ شہید ہو گئے۔ان کے بعد حماس کی طرف سے باضابطہ اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ ’’القسام‘‘ کا کمانڈر اعلی کس کو بنایا گیا ہے لیکن وہ ’’محمد الضیف‘‘ ہی تھے اور اس بات کا علم دنیا کو 2012؁ء میں منظر عام پر آنے والی اس ویڈیو میں ہوا جس میں ’’محمد الضیف‘‘ ایک سائے کی طرح نظر آئے اور انہوں نے اسرائیل کو چیلنج کیا کہ اب جب بھی اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ کیا اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور پھر انہوں نے جو کہا اسے سچ کر دکھایا۔2007؁ء سے اب تک اسرائیل جب بھی غزہ کی زمین پر آیا ہے اسے شدید نقصان اٹھا کر بھاگنا ہی پڑا ہے اور یہ سب ’’محمد الضیف‘‘ کی اس جنگی حکمت عملی سے ممکن ہوا ہے جو انہوں نے خاموشی سے بنائی،پس پردہ رہ کر بروئے کار لائی اور خود کو پوشیدہ رکھنے کی کامیاب اسٹرٹیجی اختیار کر کے اسرائیل کو اس سے دھوکے میں رکھا۔اسی دوران ’’محمد الضیف‘‘ ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ شہید ہو گئی۔اس حملے کے بعد انہوں نے اپنے قریبی ساتھی ’’محمد الجعبری‘‘ کو القسام کا کمانڈر بنا دیا اور خود غائب ہو گئے۔شاید ان کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اسرائیل الجعبری کے پیچھے لگا رہے گا وہ اس دوران اپنا کام سر انجام دیتے رہیں گے۔اور ایسا ہی ہوا۔ 2012؁ء میں اسرائیل الجعبری کو بھی فضائی کارروائی میں نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔’’محمد الضیف‘‘ ان کے جنازے پر آئے اور پھر پس پردہ چلے گئے۔ حماس کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’الجعبری‘‘ کی شہادت کے بعد ’’محمد الضیف‘‘ نے القسام کی جنگی حکمت کو مکمل طور پر نیا رخ دیا ہے اور انتہائی خفیہ انداز میں تمام ترتیبات کو ازسرنو اس طرح منظم کیا ہے کہ اسرائیل کو اسے سمجھنے میں بہت سا وقت لگ جائے گا۔ حالیہ حملہ جس میں ان کی اہلیہ اور بچے کی شہادت ہوئی ان پر اسرائیل کی طرف سے پانچواں حملہ ہے جس سے وہ بچ نکلے ہیں۔اس سے پہلے 2012؁ء کی اسرائیلی کارروائی کے دوران ان کی گاڑی پر ’’اپاچی‘‘ہیلی کاپٹر سے شیلنگ کی گئی،گاڑی مکمل تباہ ہو گئی، ان کے دونوں رفقاء بھی شہید ہو گئے لیکن وہ باوجود معذوری کے سالم رہے اور بچ نکلے،یہ ایک معجزہ نما فرار تھا اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کافی وقت لگا اور جب ان کا بچ نکلنا یقینی طور پر ثابت ہو گیا تو یہ اس کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ ’’محمد الضیف‘‘ کو پوشیدہ رہنے کا اس قدر اہتمام ہے کہ ان کے سسر مصطفی العصفور بتاتے ہیں کہ انہوں نے ’’محمد الضیف‘‘ کو صرف ایک بار دیکھا جب وہ ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے 2007؁ء میں ان کے گھر آئے تھے۔انہوں نے اپنی بیٹی سے اس کا ذکر کیا تو وہ خوشی سے تیار ہو گئی،خود انہوں نے بھی اسے اپنے لئے قابل فخر و اعزاز سمجھا۔اس کے بعد انہوں نے ’’محمد الضیف‘‘ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی بیٹی اور نواسے کو شہادت سے پہلے کبھی دیکھاحالانکہ جس گھر میں یہ لوگ شہید ہوئے وہ غزہ کے عین وسط میں واقع ہے۔ غزہ یونیورسٹی کے پروفیسر ’’ھانی بسوس‘‘ کا کہا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ ایک کمرے میں بند رہ کر بخوشی اور با آسانی گذار سکتے ہیں،وہ بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں،ان کے روابط انتہائی محدود ہیں،انہیں اپنے اوپر مکمل ضبط ہے اور وہ ایک انفرادی خصوصیات کے حامل انسان ہیں اور رپورٹ کے آخری الفاظ ملاحظہ فرمائیں: ’’محمد الضیف‘‘ 2014؁ء میں القسام کے قائد اعلی کے طور پر باضابطہ سامنے آ گئے ہیں۔اس وقت ان کے کندھے پر بھاری ذمہ داریاں ہیں اور ہاتھ میں بہت سے کارڈ ہیں جنہیں وہ کامیابی سے کھیل رہے ہیں۔اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ اس کارروائی میں ضرور نشانہ بن جائیں گے کیونکہ یہ آپریشن بہت طویل محنت کے بعد اور پختہ معلومات کی روشنی میں مرتب کیا گیا تھا لیکن حماس کے ترجمان نے اس کے بعد آ کر اعلان کر دیا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ زندہ ہیں۔وہ القسام کی قیادت کر رہے ہیں اور اس نے چیلنج کیا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ ہی القسام کے وہ کمانڈر ہیں جو القدس کو فتح کریں گے( ان شاء اللہ) اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے پاس ایک بار پھر ناکامی کے ساتھ سر جھکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔ اسلام کا یہ عظیم مجاہد اور غزہ کا شیر اس مقام اور مرتبے کو پہنچنے میں زندگی کے جن کٹھن مراحل سے گذرا ہے یہ کافی سبق آموز داستان ہے
  4. i love sahabah

    مُعْطِی بھ&#1740

    اﷲ تعالیٰ دنیا کی محبت، دنیا کے فتنے اور دنیا کی تنگی سے میری اور آپ سب کی حفاظت فرمائے… آمین… (۱) دنیا کی محبت بھی خطرناک… دل کو مُردہ کرنے والی (۲) دنیا کا فتنہ بھی خطرناک… دل کو غافل کرنے والا (۳) دنیا کی تنگی بھی خطرناک… دل کو لوگوں کا محتاج بنانے والی… ایک قصہ ایک نیک اور مالدار شخص نے اپنا قصہ لکھا ہے کہ… ایک دن میرا دل بہت بے چین ہوا… ہر چند کوشش کی کہ دل بہل جائے، پریشانی کا بوجھ اُترے اور بے چینی کم ہو، مگر وہ بڑھتی ہی گئی… بالآخر تنگ آکر باہر نکل گیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا، اسی دوران ایک مسجد کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہے… فرض نمازوں میں سے کسی کا وقت نہیں تھا، میں بے ساختہ مسجد میں داخل ہوا کہ وضو کر کے دو چار رکعت نماز ادا کرتاہوں، ممکن ہے دل کو راحت ملے… وضو کے بعد مسجد میں داخل ہوا تو ایک صاحب کو دیکھا… خوب رو رو کر گڑ گڑا کر دعاء مانگ رہے ہیں اور کافی بے قرار ہیں… غور سے ان کی دعاء سنی تو قرضہ اتارنے کی فریاد میں تھے… اُن کو سلام کیا، مصافحہ ہوا، قرضہ کا پوچھا… بتانے لگے کہ آج ادا کرنے کی آخری تاریخ ہے اپنے مالک سے مانگ رہا ہوں… اُن کاقرضہ چند ہزار روپے کا تھا وہ میں نے جیب سے نکال کر دے دیئے… ان کی آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے…اور میرے دل کی بے چینی سکون میں تبدیل ہو گئی… میں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر پیش کیا کہ آئندہ جب ضرورت ہو مجھے فون کر لیں… یہ میرا پتا ہے اور یہ میرا فون نمبر… انہوں نے بغیر دیکھے کارڈ واپس کر دیا اور فرمایا… نہ جناب! یہ نہیں… میرے پاس اُن کا پتا موجود ہے جنہوں نے آج آپ کو بھیجا ہے… میں کسی اور کا پتا جیب میں رکھ کر اُن کو ناراض نہیں کر سکتا… سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم تھوڑا سا غور فرمائیں اللہ تعالیٰ ہی ہمارے اور تمام جہان کے رب ہیں… یعنی پالنے والے ہیں… وہی سب کے رزّاق ہیں، وہی معطی ہیں یعنی عطاء فرمانے والے… ہم ماں کے پیٹ میں تھے تواللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم چلنے پھرنے سے معذور معصوم بچے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں روزی دی… ہم نے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے… مگرہم یہ سب کچھ کتنا جلدی بھول جاتے ہیں… کوئی ہمیں کچھ مال دے توہم اس کا نام پتا بہت احتیاط سے محفوظ کرلیتے ہیں… اور اپنی کئی توقعات اُس سے وابستہ کر لیتے ہیں… ہمارادل بھکاری کے پیالے کی طرح دنیا داروں کے سامنے منہ کھولے رہتا ہے کہ فلاں ہمیں یہ دے اور فلاںہمیں وہ دے… حالانکہ دنیاکے انسان فانی ہیں، آج ہیں کل نہیں ہوں گے… اُن کا دل بھی چھوٹا اورہاتھ بھی تنگ… ہم جب کسی سے مانگیں گے تو وہ ہم سے نفرت کرے گا… ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو وہ ہم سے محبت فرمائے گا… ہم جب دنیا والوں سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ ہمیں دیںتو وہ لوگ ہم سے ڈریں گے، ہم سے بھاگیں گے اور ہم سے چھپیں گے… لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ سے امید اور توقع رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا پیار عطاء فرمائے گا اور ہمارے دل کو اپنے اور زیادہ قریب فرمالے گا… جو کہتا ہے یا اللہ! میں صرف آپ کا فقیر… اللہ تعالیٰ اُسے کسی اور کا فقیر اور محتاج نہیں بناتے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دو بچیوں کے جانوروں کو پانی پلایا… پھر؟ ثُمَّ تَوَلّٰی اِلَی الظِّلِّ پھر پیٹھ پھیر کر ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے… ہاں!جب کسی پر احسان کرو تو پھر اپنا چہرہ بھی اس کی طرف اس امید میں نہ کرو کہ وہ شکریہ ادا کرے، وہ بدلہ دے، وہ دعاء دے بس فوراً اُس سے پیٹھ اور دل پھیر کر اپنے رب کے پاس آبیٹھو: رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں… یا اللہ! آپ کی طرف سے آنے والی خیر کا فقیر اور محتاج ہوں… دل جب خالص اللہ تعالیٰ سے جڑا ہو… اور کسی کی طرف خیال نہ ہو تو پھر ایک خیر نہیں ہزاروں خیریں خود چل کر آتی ہیں… فَجَآئَ تْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ خیر خود آگئی… کھانا، ٹھکانا، شادی، انصار اور بہترین معاشرہ سب کچھ ایک آن میں مل گیا… اسی لئے تو آج جب سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا یہ الفاظ زبان پر بار بار آرہے ہیں: معطی بھی وہی، رزاق بھی وہ بھائیو! اور بہنو!… کسی سے سؤال نہیں، کسی سے توقع اور غرض نہیں، کسی کا پتا اور فون نمبر نہیں… بس ایک اللہ، بس ایک اللہ، بس ایک اللہ… اَلْمُعْطِی ھُوَاللّٰہ، اَلرَّزَاقُ ھُوَاللّٰہ، اَلرَّبُّ ھُوَاللّٰہ حضرت علیؓ عنہ کا فرمان وہ شخص جس نے مالدار آدمی کا کارڈ واپس کر دیا کتنا عقلمند تھا؟ اُس نے اپنے اور اپنے رب کے درمیان پردہ آنا گوارہ نہ کیا… جب ضرورت پڑے توجہ کسی مالدار کی طرف چلی جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف نہ جائے… یہ کتنی محرومی کی بات ہے… مالدار کا فون کبھی کھلا کبھی بند… جبکہ اللہ تعالیٰ کا رابطہ ہروقت کھلا اور وہ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب… مالدار کا موڈ کبھی ٹھیک کبھی خراب، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمیشہ کھلا: بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ مالدار مر گیا تو اب فون ملانے سے کیا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حیٌّ اور قیوم ارے بھائیو! ایمان والے کو تو حاجت پیش آتی ہی اس لئے ہے کہ وہ بار بار ’’یا ربِّ، یا ربِّ، یا ربِّ‘‘ پکارے… اس کی حاجت پوری ہونے میں بعض اوقات تأخیر اس لئے ہوتی ہے کہ اُس کے نامۂ اعمال میں مزید دعاء اورمزید آہ وزاری لکھی جائے… ورنہ مالک کے خزانوں میں کیا کمی ہے… مگر جب بندہ مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو اچھا لگتا ہے… اور یہ مانگنا اُس بندے کے لئے آخرت کا سرمایہ بن جاتا ہے… ہم کسی مالدار سے مانگیں گے تو ہمارا چہرہ بگڑ جائے گا اور ہم اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو ہماراچہرہ روشن ہو جائے گا… مالدارلوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ آپ سے کہہ دیں گے… جناب! جب ضرورت ہو مجھے بتادیجئے گا… حالانکہ وہ ہماری ہر ضرورت پوری نہیں کر سکتے… اگر ہم خدانخواستہ اُن کو اپنی ضرورت بتانے لگیں تو وہ دو چار بار کے بعد اپنا فون نمبر ہی بدل لیں گے… آخر وہ بھی انسان ہیں، اُن کو اپنے مال سے محبت ہوتی ہے… اُن کی بھی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں… اُن سے اور بھی بہت سے لینے والے ہوتے ہیں… توپھر اُن کے ایک جملے سے… ہماری توقعات کا رُخ اللہ ربّ العالمین سے ہٹ کر اُن کی طرف کیوں مُڑ جاتا ہے؟… جبکہ اللہ ربّ العالمین نے ہمیں فرمایا ہے کہ مجھ سے جب چاہو مانگو… میرے خزانے بے شمار ہیں… اور اللہ تعالیٰ جس کو جتنا بھی دیں اُن کے ہاں کمی نہیں آتی… آج سے ایک معمول بنا لیں… ضرورت کے وقت جب ہماری توجہ اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر کسی انسان کی طرف جائے تو ہم فوراً اپنے لئے اور اس انسان کے لئے استغفار شروع کردیں… اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلَہٗ یااللہ! میری بھی مغفرت فرما،اس کی بھی مغفرت فرما… یا اللہ! مجھے بھی معاف فرما اور اُسے بھی معاف فرما… ان شاء اللہ اس عمل کی برکت سے ہم ’’ اِشراف‘‘ کے گناہ سے بچ جائیں گے… مالدار بے چارے تو مصیبت میں ہوتے ہیں وہ کسی کو دس بار دیں مگرگیارہویں بار نہ دے سکیں تو سامنے والا اُن سے ناراض ہوجاتا ہے… اُن کو بددعائیں دیتا ہے… اُن کے دس بار دیئے ہوئے کو بھول کر اُن سے نفرت کرنے لگتاہے کیونکہ’’حبّ دنیا‘‘ نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے… ایسے اندھیرے ماحول میں ہم یہ روشنی پالیں کہ جو ہم پر احسان کرے ہم اُس کے لئے دعاء کریں، آئندہ اُس سے مزید کی توقع نہ رکھیں اور اگر دل میں توقع آئے تو ہم اُس کے لئے استغفار کا ہدیہ بھیجیں یوں ہم اُسے دینے والے بن جائیں گے… اور اللہ تعالیٰ کو اوپر کا ہاتھ… یعنی دینے والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے زیادہ پسند ہے… حضرت علی رضی اللہ عنہ… زاہدوں کے امام ہیں، آج اُن کے کئی مبارک فرامین نقل کرنے تھے مگر کالم کی جگہ مختصر ہے تو بس ایک ہی فرمان پر اکتفا کرتے ہیں… اللہ کرے وہ میرے اور آپ سب کے دل میں اُتر جائے… حضرت ہجویریؒ کشف المحجوب میں لکھتے ہیں: ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! مجھے کوئی وصیت کیجئے، آپؓ نے فرمایا: تم اپنے اہل و اولاد میں مشغول ہونے کو(یعنی ان کی خاطر دنیا جمع کرنے کو) اپنا سب سے بڑا اور اہم کام نہ بناؤ… کیونکہ اگر تمہارے اہل و اولاد اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا، اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں سے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں میں مشغول ہونا اور ان کی فکر کرنا تمہارے لئے کسی بھی طرح درست نہیں… (کشف المحجوب ص ۱۱۳) ایک جامع نصاب ’’حبّ دنیا‘‘ سے حفاظت کا موضوع بڑا اہم اور بہت مفصل ہے… اوراسے بار بار دُھرانے کی ضرورت ہے… کیونکہ جن لوگوں کے دل میں آخرت کی فکر ہوتی ہے انہیں پر’’حبّ دنیا‘‘ کا زیادہ حملہ ہوتا ہے… حضرت ابو سلیمان الدارانیؒ فرماتے ہیں: ’’جب آخرت دل میں ہو تو دنیا وہاں حملہ آور ہوتی ہے تاکہ آخرت کو دل سے نکال دے… لیکن جب دنیا دل میں ہو تو آخرت اُس پرحملہ آور نہیں ہوتی… کیونکہ دنیا کمینی ہے اور آخرت معزز ہے…‘‘ حبّ دنیا کا مکمل موضوع کسی ایک کالم میں نہیں آسکتا… بس آج ہم سب ایک نصاب یاد کر لیں اور ساری زندگی اُس سے غافل نہ ہوں… یہ نصاب ان شاء اللہ ہمیں دنیا کی محبت میں اندھا ہونے سے بچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے (۱) حبّ دنیا سے حفاظت کی ہمیشہ دعاء بہت عاجزی کے ساتھ مانگنے کا معمول رہے (۲) حرام مال قطعاً نہ کمائیں، نہ لیں (۳) کسی بھی انسان سے ہرگز سؤال نہ کریں (۴) کسی بھی انسان سے ’’اِشراف‘‘ نہ رکھیں یعنی دل میں اُس سے کچھ لینے، کچھ ملنے کی لالچ اور توقع نہ ہو (۵) مال میں اِسراف و تبذیر نہ کریں… نہ حرام پرخرچ کریں، نہ حلال میں ضرورت سے زیادہ لگائیں (۶) مال میں بخل نہ کریں…خصوصاً زکوٰۃ اور دیگر شرعی حقوق ادا کرنے میں (۷) امانت اور اجتماعی اموال میں ہرگز خیانت نہ کریں… بس یہ ہے مختصر اور جامع نصاب… اللہ تعالیٰ میرے لئے بھی اس پرعمل آسان فرمائے اور آپ کے لئے بھی… دینی،جہادی دعوت دینے والوں کے لئے اگرلوگوں کی مالی حاجات پوری کرنے سے لوگ ہدایت پر آتے تو اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء علیہم السلام کو زمین کے خزانے دے کر بھیجتے… وہ لوگوں کو مال دیتے اور لوگ دین پر آجاتے… مگر مال سے دین پر کوئی نہیں آتا… مال سے گمراہی تو پھیلائی جا سکتی ہے، اسلام اور جہاد کو نہیں پھیلایا جا سکتا … آپ لوگوں کو دین کی اور جہاد کی دعوت دیں… یہی آپ کے لئے اور اُن کے لئے کامیابی کا راستہ ہے… اگرآپ ریلیف کے کاموں کو بھی ساتھ لگا کر دعوت چلائیں گے تو…لینے والے مزید کی توقع کریں گے اورجن کو نہیں ملے گا وہ آپ سے اور آپ کی دعوت سے نفرت کرنے لگیں گے… ریلیف اور خدمت خلق کا کام دین کا ایک الگ شعبہ ہے… اُس شعبہ کے بھی بہت فضائل ہیں… مگر وہ ایمان اور جہاد کی دعوت کے برابرنہیں… ایمان اور جہاد کی دعوت بہت بڑی چیز اور بڑی عظیم نعمت ہے… حضرات انبیاء علیہم السلام نے یہ دعوت دی اورلوگوں کو جان و مال کی قربانی میں لگایا… جب لوگ دنیا سے کٹ کر جان ومال کی قربانی پر آگئے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھی اُن کے قدموں میں ڈال دی… کسی کے ساتھ نیکی کرنا، خدمت خلق کرنا ان کاموں سے کوئی بھی مسلمان کسی کو روکنے کا تصور نہیں کر سکتا… مگر ان کاموں کو ایمان اور جہاد کی برحق دعوت کے ساتھ خلط کرنے سے … وہ عظیم دعوت کمزور ہوتی ہے… اپنی توجہ ایمان، اقامت صلوٰۃ اور جہاد کی دعوت اورعمل پررکھیں… اپنا مال جہادپرلگائیںاور اپنے ذاتی مال سے مسلمانوں کی جو حاجت پوری کر سکتے ہوں وہ کریں… حبّ دنیا کے فتنے سے خود بھی بچیں اور مسلمانوں کو بھی بچنے کی دعوت دیں… دین کی خاطر خود بھی جان و مال کی قربانی دیں اور مسلمانوں کو بھی اس قربانی پرلائیں… بس جلد ہی ہم زمین کے نیچے ایک ایسی جگہ ہوں گے جہاں نہ کوئی تکیہ ہوگا اور نہ کوئی نرم لحاف… ہمارے پاس جو کچھ ہے یہ اُن کا تھا جو مر گئے… پھر ہم مرجائیں گے اور یہ سب کچھ پیچھے والوں کا ہو جائے گا… اور ہم خالی ہاتھ قبرمیں ہوں گے… وہاں جو کچھ کام آسکتا ہو بس اسی کی ہم سب فکر اورمحنت کریں… لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ… اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا… لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ…
  5. i love sahabah

    جناب! حاجی ص

    سیٹھ عبدالرزاق آج بُہت خُوش تھا اور خُوش کیوں نہ ہُوتا کہ آج اُس کی برسوں پرانی مُراد بَر آنے والی تھی ۔ وہ ایک ایسے قافلے میں شریک ہُونے جارہا تھا کہ جِس قافلے کی منزل حَرمِ پاک تھی۔ وہ کئی دِنوں سے اپنے رشتہ داروں سے مُلاقات کر رہا تھا اور ہر ایک آنے والے کو بتا رہا تھا کہ آخر اس کا بُلاوا بھی دیارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگیا ہے ، وہ اپنے شہر کا جانا مانا رَئیس تھا ایک مُدت سے دِیارِ حَرم کی زمین کو بوسہ دینے کی خُواہش اُس کے دِل میں مچل رہی تھی اور بِلآخر آج وہ دِن آپُہنچا تھا کہ اُسے اِس مُبارک سفر کی سعادت حاصل ہُونے جارہی تھی۔ اور پھر وہ گھڑی بھی آپُہنچی کہ وہ اپنے بیوی، بَچوں سے الوداع ہو کر عازم سفر ہُوگیا دیار حَبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کے تصور کی خُوشی اس قدر تھی کہ اس احساس نے اِسے اپنوں کی جُدائی کا کوئی خاص مَلال نہ ہُونے دِیا۔ الوداع کرتے ہُوئے مُحلہ داروں ، دوست احباب اور گھر والوں نے سو امن پھول کی پتیاں بھی اُس پر نچھاور کر ڈالیں تھیں اُس نے برقی قمقموں سے جگمگاتے ہوئے اپنے گھر پر الوداعی نِگاہ ڈالی اور اپنے مُلازم عبداللہ کےساتھ قافلے والوں کے ساتھ عازم سفر ہُوگیا۔ عبداللہ اُس کا خاص مُلازم تھا جِسے گھر والوں نے اِصرار کر کے سیٹھ عبدالرزاق کےساتھ کردِیا تھا تاکہ عبداللہ سفر میں آنے والی تکلیفوں کو خُود پر بَرداشت کرتے ہوئے سیٹھ عبدالرزاق کیلئے آسائش پیدا کر سکے اور عبداللہ کی خِدمت نے ثابت کر دِیا تھا کہ سیٹھ عبدالرزاق کے گھر والوں کا فیصلہ بالکل صائب تھا۔ واقعی عبداللہ کی موجودگی میں کبھی سیٹھ عبدالرزاق کو شکایت کا کوئی موقع ہاتھ نہیں آیا تھا ۔ عبداللہ جہاں ایک بہترین خِدمتگار ثابت ہُوا تھا وہیں وہ ایک بِہترین باورچی بھی ثابت ہُوا تھا تمام سفر میں اپنے مالک کی ہر ایک ضرورت کا اُس نے دھیان رکھا تھا بلکہ جب کبھی سیٹھ عبدالرزاق آرام کی زیادتی کے سبب اپنی تھکن کا اِظہار کرتا تُو فوراً عبداللہ اپنے مالک کے ہاتھ پاؤں دَبانا شروع کردیتا جِس کی وجہ سے سیٹھ عبدالزاق کا کاہل جسم پھر سے توانا ہُوجاتا اور آخر وہ دِن بھی آپُہنچا کہ مِیر کارواں نے منزل کے آنے کا مُژدہ جاں فِزا سب کو سُنایا۔ تب ہر چہرہ خُوشی سے تمتمانے لَگا تھا۔ کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پَڑتے ہی ہر آنکھ اشکبار نظر آرہی تھی اور ہَر چہرے کو دیکھ کر یُوں مِحسوس ہُورہا تھا کہ جیسے صدیوں سے مِحبوس غلاموں کو آزادی کا پروانہ مِل گیا ہُو ۔ طواف و سعی کے بعد سب ایک قطار میں اپنے سر مُنڈوا رہے تھے کِسی نے بَڑھ کر آب زَم زَم پیش کیا۔ تُو کوئی عمرہ کی مُبارکباد دے رَہا تھا رِہائش چُونکہ حَرم سے نزدیک تر تھی اِس لئے جس کا جب جی چاہتا حَرم میں چَلا آتا اور گھنٹوں گُزر جاتے لیکن وقت کا احساس نہیں ہُوتا۔ وقت مگر کسی کیلئے کب ٹِھہرتا ہے سو گُزرتا رَہا۔۔ گُزرتا رَہا۔۔۔ اور ایک دِن چاروں جانب سے مِنٰی چلو۔مِنٰی چلو کی صدائیں آنے لگیں اور عبداللہ تمام سامان ِضرورت اپنے توانا کاندھوں پر سنبھالے سیٹھ عبدالرزاق کے پیچھے پیچھے چَلا جارہا تھا 2 دِن بعد وہ عرفات کے میدان میں موجود تھے اور رُو رُو کر خُدائے رَحمٰن سے اپنے گُناہوں کی معافی مانگ رہے تھے مغرب کی آذان سُنتے ہی وہ مُزدلفہ کے میدان کی جانب چل دیے تھے اگلے دِن شیطان کو کنکریاں مارنے اور قربانی سے فارغ ہُونے کے بعد جب وہ اپنے خیموں میں داخِل ہوئے تُو عبداللہ اپنے مالک کو نمکین گوشت کھلانے کیلئے تیاری کر رہا تھا۔ آج سب طوافِ زیارت سے فارغ ہُوچُکنے کے بعد اپنے خیموں میں موجود تھے اور امیر قافِلہ کے حُکم کے منتظر تھے آج پھر سب کو اِک مبارک سفر درپیش تھا کوئی خُوبصورت لہن میں،، حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دِیکھو ۔ کعبہ تُو دیکھ چُکے اب رسول اللہ کا روضہ دیکھو۔۔ پڑھ کر حاجیوں کے عشق کو مزید بیدار کر رہا تھا اور آخر وہ مُبارک ساعت بھی آپُہنچی جب اَمیرِ قافِلہ نے کُوچ کا حُکم سُنا ڈالا اور تمام حاجی مُجرموں کی طرح سَروں کو جھکائے ادب سے قافلہ میں شریکِ سفر تھے۔ سفر جاری تھا کہ کِسی دیوانے نے صدا لگائی وہ دِیکھو سبز گُنبد نظر آرہا ہے اور ساتھ ہی مسجد نبوی کے نُور بار مینار بھی نظر آرہے ہیں ہر آنکھ دیوانے کے ہاتھوں کا اِشارہ پاتے ہی شوقِ دیدار کی خاطر دیوانہ وار طوافِ مینار و گُنبد میں مصروف تھی مگر ایک دیوانہ تھا جو اپنی نِگاہوں کو باوجود ہزار خُواہش نہیں اُٹھا پا رہا تھا۔ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) پُہنچ کر اَمیر قافلہ نے اعلان کیا سب بقیع کی جانب چلو ہم باب جبرائیل سے باادب طریقے سے قدموں کی طرف سے داخل ہونگے ہر ایک پروانہ وار وجد کی کیفیت طاری کئے حاضر ہُونے کیلئے بیقرار تھا لیکن وہ دیوانہ اپنی نظریں جُھکائے دروازے کے باہر ہی ٹھہر گیا تھا عبدالرزاق نے اُس دیوانہ کی اِس حَرکت کو مُلاحِظہ کیا تُو دیوانے کے قریب چَلا آیا اور کہنے لگا عبداللہ ہر مسلمان کی خُواہش ہوتی ہے کہ اپنے کریم آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے روضے پر حاضر ہُو کر شفاعت کی سند حاصل کرے لیکن عبداللہ میں دیکھ رَہا ہُوں کہ تُم اندر داخل ہونے کے بجائے باہر ٹھہر گئے ہو کیا تُمہیں یہ اندیشہ ہے کہ کوئی ہمارا سامان یہاں سے اُٹھا کر لے جائے گا ۔ سُنو اگر ایسا کوئی وہم تمہارے دِل میں موجود ہے تُو اِسے باہر نِکال پھینکو اور یہ سعادت حَاصل کر لُو یہ موقع ہر ایک کو نہیں مِلتا تُم خُوش نصیب ہُو جو یہاں تک پُہنچنے میں کامیاب ہُوگئے ہُو۔ عبداللہ کے قدم سیٹھ عبدالرزاق کی بات سُن کر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے سیٹھ عبدالرزاق کو عبداللہ کی اِس نافرمانی سے تشویش لاحق ہُونے لگی تھی ایکبار پھر سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کے کاندھوں کو جھنجوڑتے ہُوئے دھیمے لہجے میں کہا عبداللہ کیا میری بات سمجھ میں نہیں آرہی تُمہیں؟ عبداللہ نے نہایت غمگین لہجے میں مالک کو جواب دِیا میرے آقا میں جانتا ہُوں کہ ہر مسلمان کے دِل کی خُواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک بار ضرور اِس دربار میں حاضر ہُو اور مجھے قُرآن مجید کا وہ فرمان بھی معلوم ہے کہ جس میں گُناہگاروں کو بخشش کیلئے اپنے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدموں میں حاضر ہوکر معافی چاہنے کا حُکم دِیا گیا ہے لیکن میرے آقا میں کروں کہ مجھ میں اِتنی ہمت نہیں کہ اپنی زندگی بھر کی گُناہوں کی پُوٹلی لیکر اپنے کریم آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے رُوبرو حاضر ہُوسکوں اِس لئے مجھے اپنے حُکم کی تعمیل سے قاصر سمجھتے ہوئے مُعاف فرما دیجئے وہ جانتے ہیں کہ اُن کا ایک غلام شرمندگی کے سبب اُن کے سامنے حاضر ہونے سے شرما رہا ہے اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ میرے اِس عُذر کو قبول فرماتے ہُوئے میری شفاعت کا ذِمہ بھی اپنے مقدس ہاتھوں میں ضُرور لیں گے اور میں بھی اُن کے دربار سے خالی ہاتھ ن ہیں جاؤںگا۔ دِیارِ حَبیب (صلی اللہُ علیہ وسلم) سے حاجیوں کا قافِلہ رحمتیں برکتیں اور مغفرتیں سمیٹ کر وا پِس اپنے وطن کیلئے رَواں دواں تھا مدینہ طیبہ سے روانہ ہوتے جو قافلہ جُدائی کے سبب مغموم اور بیقرار تھا اب معمول کے مُطابق آپس میں ہَنسی مذاق کرتا ہُوا آگے بڑھ رَہا تھا مگر عبداللہ کو جیسے چُپ سی لگ گئی تھی عبداللہ کی خِدمت گُزاری میں حالانکہ کوئی کَمی نہیں آئی تھی مگر اب عبداللہ کی شوخیاں نہ جانے کہاں گُم ہو کر رِہ گئی تھی۔ تمام قافلہ والوں کو اگرچہ اَمیر قافلہ نے تاکید کی تھی کہ واپسی سے قبل سفر کی ضرورتوں کا مکمل سامان ساتھ رَکھا جائے مگر بُہت کَم لوگ تھے جِنہوں نے اَمیرِ قافلہ کی بات پر کان دَھرا تھا ۔ البتہ ایسا کوئی حاجی نہ تھا جِس نے تَحائف خَریدنے میں کوئی کَمی چُھوڑی ہُو۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اکثر حَاجیوں کا زاد راہ نصف راستے میں ہی خَتم ہُونے لگا تھا۔ ایک دِن عبداللہ نے اپنے مالک کو خبر دِی کے کھانا پکانے کیلئے گھی موجود نہیں ہے اور قافِلہ میں بھی ایسا کوئی شخص موجود نہیں جو وافر مِقدار میں گھی رکھتا ہُو اگر آپ حُکم دیں تُو سادہ پانی سے ہی شوربہ تیار کرلوں۔ سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو سمجھایا کہ جب تک قافِلہ ٹھہرا ہُوا ہے تُم نزدیک کی بستی میں چلے جاؤ اور اُنہیں بتانا کہ ہم حاجی لوگ ہیں اور واپسی کے سفر میں ہیں وہ ضرور حاجیوں کا سُن کر تُمہیں گھی دے دیں گے۔ اَگلے پڑاؤ پر عبداللہ نے اپنے مالک کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس اب نمک بھی خَتم ہُوچُکا ہے۔ مالک نے پھر وہی جُملہ دُھرایا کہ اس بستی کے مکینوں کو جاکر بتاؤ کہ ہم حاجی ہیں کوئی تُمہیں نمک دینے میں تامل نہیں کرے گااور ایک دِن یہ قافِلہ واپس شہر کی حُدود میں داخل ہورہا تھا تمام حاجیوں کا اُن کے گھر والوں نے پر تپاک استقبال کیا اور جب سیٹھ عبدالرزاق اپنے گھر میں داستانِ حرم سُنا رھا تھا تو تمام گھر کے افراد عقیدت و اِشتیاق سے یہ داستان سُن رہے تھے کبھی سُننے والوں کے چہرے وفود خُوشی سے چَمک چَمک جاتے کبھی حیران رِہ جاتے اور کبھی کسی موڑ پر سامعین کی آنکھیں ڈُبڈبا جاتی تھی لیکن کسی کی بھی نظر کونے میں اُداس بیٹھے عبداللہ کی جانب نہیں گئی۔ وقت گُزرتا رہا لیکن عبداللہ کے چہرے کا تبسم جیسے کہیں کُھو کر رِہ گیا تھا کُچھ عرصہ کے بعد کسی دوسرے شہر کے کُچھ تاجر سیٹھ عبدالرزاق کے گھر مہمان ٹھہرے وہ لوگ اِس بات سے نابَلد تھے کہ سیٹھ عبدالرزاق ابھی چند ماہ پہلے حج کی سعادت حاصل کرچُکا ہے ۔ کافی دیر گُزرنے کے بعد بھی باتوں کا کوئی ایسا سلسلہ نہیں چَل سکا جِس کے ذریعے سیٹھ عبدالرزاق اپنے حج کی داستان اپنے کاروباری مہمانوں کے گوش گُزار کر سکتا یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہوگیا جب دستر خُوان بچھایا جانے لگا تُو اچانک سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا عبداللہ وہ دَستر خُوان کیوں نہیں بِچھاتے جِس پر ہم دورانِ حج کھانا کھایا کرتے تھے۔ اچانک کسی مہمان کی آواز بُلند ہوئی عبدالرزاق بھائی کیا آپ اِمسال حج پر گئے تھے؟ سیٹھ عبدالرزاق جیسے اِس موقع کی تلاش میں تھا فوراً تمام مہمانوں کو اپنے سفر کی روئیداد سُنانے لگا اور سلسلہ کھانے کے بعد تک جاری رَہا ہر ایک مِہمان اُسکے مقدر پر رَشک کر رہا تھا اور اُسے مبارکباد پیش کر رَہا تھا۔ شام کو مِہمانوں کے جانے کے بعد سیٹھ عبدالزاق نے عبداللہ کو تنہائی میں بُلا بھیجا جب عبداللہ خِدمت میں حاضر ہوگیا تو سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اِشارہ کیا عبداللہ کے فرش نَشین ہوتے ہی سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا" کیا بات ہے عبداللہ میں دِیکھ رَہا ہُوں کہ جب سے تُم نے حج کی سعادت حاصِل کی ہے تُم یکسر خَاموش ہُوگئے ہُو وہ خُوشی جو ایک حاجی کے چہرے پر اِس سعادت کے حاصِل ہُوجانے کے باعِث ہونی چاہیئے وہ مجھے کبھی تُمہارے چہرے پہ نظر نہیں آئی؟ عبداللہ چند لمحے خاموش بیٹھا دیواروں کو گُھورتا رہَا۔ لیکن جب سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو حاجی عبداللہ خاموش کیوں ہُو۔ کہہ کر مُخاطِب کیا تُو عبداللہ کی خَاموشی بھی ٹُوٹ ہی گئی۔مالک مجھے حاجی کہہ کر مُخاطِب نہ کریں عبداللہ کی آواز میں التجا سے ذیادہ احتجاج کی جھلک نظر آرہی تھی۔کیوں حاجی نہ کَہوں تُمہیں۔ کیا تُم نے میرے ساتھ حج کی سعادت حاصل نہیں کی؟ سیٹھ عبدالرزاق نے عبداللہ کو حیرت سے دیکھتے ہُوئے سُوال کیا۔ مالک ہم اپنا حج تُو بُہت پہلے گھی اور نمک کے عِوض فروخت کر چُکے ہیں۔ عبداللہ جواب دیتے ہُوئے روہانسہ ہُوگیا تھا۔کیا بِہکی بِہکی باتیں کر رہے ہو عبداللہ کہیں کِسی ہُوا کی جھپٹ کا شِکار تُو نہیں ہُوگئے تُم؟عبداللہ : نہیں مالک میں کِسی فریب میں مُبتلا نہیں ہُوں اور نہ ہی میں کوئی دیوانہ ہُوں۔ مگر آپ شائد بھول گئے ہیں۔سیٹھ عبدالزاق : کیا بُھول گیا ہُوں میں۔ جو کہنا ہے ذرا صاف صاف کہو۔عبداللہ : کیا آپ بُھول گئے کہ حج سے واپس آتے ہُوئے سفر میں جب گھی خَتم ہونے پر آپ نے مُجھے حُکم دِیا تھا کہ بَستی والوں کو بتاؤں کہ ہم لوگ حاجی ہیں سُو اسطرح میں نے بستی والوں سے صرف اِتنا ہی کہا تھا کہ میرا مالک حج کا فرض اَدا کرنے کے بعد یہاں سے گُزر رَہا تھا کہ ہمارے سامان میں گھی خَتم ہوگیا آپ مہربانی کریں اور اِس حج کی لاج رکھتے ہُوئے ہمیں کُچھ گھی عنایت کردیں اور یوں آپ کے حج کے عوض میں مفت گھی لے آیا تھا۔ اور آپکے دوسرے حُکم کو پُورا کرنے کیلئے میں نے اَگلی بَستی والوں کو اپنے حج کے مُتعلق بتایا اور یُوں اپنا حج بھی داؤ پر لگا دِیا۔ میرے مالک میرے پاس تو صرف اِک حج کی دولت تھی جِسے میں نَمک کے بدلے دے آیا ہوں لیکن نجانے آپ کے پاس کتنے حج ہیں کہ ہر موقع پر آپ دوسروں کو یہ باور کرانے میں مصروف رِہتے ہیں کہ آپ حج کی سعادت حاصل کرچُکے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے چُنانچہ جب آپ نے آج اپنے مہمانوں کو جتانے کیلئے مجھ سے کہا تھا کہ وہ دستر خُوان بِچھاؤں جس پر ہم دورانِ حج کھانا کھایا کرتے تھے تو میں یہی سوچ رہا تھا کہ میں نے تُو آپ کیساتھ صرف ایک ہی حج کیا تھا جِسے نمک کے عوض بیچ چُکا ہوں لیکن خبر نہیں آپ کے پاس کتنے حج ہیں جو روزانہ کئی کئی حج بیچے چلے جارہے ہیں۔
  6. i love sahabah

    عید آئی ہے

    عید آئی ہے.. بابا کفن بهیج دومیرا... منی کا بهیا کا... امی کا اور پیاری دادی کا بابا کفن بهیج دو. اب کے کمبل بچهونے نہیں چاہئیے. اپنی منی کو گڑیا نہیں چاہئیے. کوئی خوابوں کی پڑیا نہیں چاہئیے.. عید آئی ہے... بابا کفن بهیج دو... میرا بستہ نہ جانے کہاں کهوگیا.. میرے کپڑے نہ جانے کہاں دفن ہیں... ساری چڑیا نہ جانے کہاں اڑگئیں.. جانے سب اشیانے کہاں دفن ہیں ؟ دادی ماں کے ہاتهوں میں تسبیح تهی.. جانے اب اس کے دانے کہاں دفن ہیں.. جو میرے پیارے بهیا کی آنکهوں میں تهے.. خوشیوں کے خزانے کہاں دفن ہیں.. خیر----- اب ڈهونڈوں کیا؟ عید آئی ہے کفن بهیج دو...... (بشکریہ شریعت فورم) بشکریہ:عاطف بیگ صاحب
  7. Asalam o alikum to all muslims
  8. i love sahabah

    Mirza Qadyani Ka Aqeeda Hayat Eesa(As)

    Asalam o alikum to all muslims
  9. i love sahabah

    وہ کیسے تھے&#156

    وہ کیسے تھے؟ بنت بشیر احمد مجھے ان سے محبت ہے ۔ان کے نام سے محبت ہے۔ بچپن سے میں اس نام سے محبت کرتی ہوں ان کانام سن کر میں دنیا کے ہرشخص کانام بھول جاتی۔ہر غم کوبھول کرمیں انہیں اوران کے اخلاق کو یاد کرتی۔ میں اکثر اپنے بڑوں سے پوچھتی تھی کہ ’’وہ کیسے تھے؟‘‘ میں نے ان کوچاند میں تلاش کیامگر وہ نظر نہ آئے۔ میں نے سناکہ ان کاچہرہ آفتاب سے زیادہ روشن تھا،ان کی زلفیں رات کی کالی گھٹا سے بھی زیادہ چمکدارتھیں، ان کی آواز میں انتہاء سے زیادہ کشش تھی ۔میں اپنے اللہ سے دعائیں مانگتی کہ میں اس نام کے متعلق جاننا چاہتی ہوں۔جس نام کولیتے ہی میرے دل میں سکون چھاجاتاہے ۔ ایک روز میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی ماں سے سوال کرڈالا کہ ’’ماں! یہ نام کن کاہے ؟ وہ کیسے تھے؟‘‘ میرے ماں نے مجھے سینے سے لگاتے ہوئے کہا ’’بیٹا!یہ اللہ کے محبوب ہیں جن کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ‘‘وہ تو میں جانتی ہوں ماں جی! مگر… ان کاچہرہ کیساتھا؟؟بیٹا!ان کی تعریف تو نا ختم ہونے والی ہے چلو میں تمہیں ان کے حسن وجمال کے متعلق بتاتی ہوں۔ ان کاچہرہ کیساتھا؟ صحابی رسول جابر بن سمرہ t فرماتے ہیں:’’ میں رات کے وقت مسجد نبوی میں داخل ہوامیرے آقانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے اور آپ کے سرکے اوپر چودھویں کاچاند چمک رہاتھا۔میں تھوڑی د یر آقا صلی اللہ علیہ وسلمکے چہرہ انور کو دیکھتا پھرچاند کو دیکھتا۔ بالآخر میرے دل نے فیصلہ دیااور کہا فاذا ھو احسن عندی من القمرکہ چاند سے زیادہ میرے آقا حسین ہیں۔‘‘ بیٹا!کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے کہ چاند سے تشبیہ دینا یہ بھی کوئی انصاف ہے چاند کے منہ پہ چھائیاں میرے مدنی کاچہرہ صاف ہے ماں جی نے کہا بیٹا! پھرانہیں صحابی سے کسی نے پوچھا کیانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیساچمکیلا تھا وہ فورا کہنے لگے : لا بل کان مثل الشمس والقمرنہیں نہیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ توآفتاب وماہتاب کی مانند تھا ۔ ماں جی بتائیے! کہ میرے آقا رسولصلی اللہ علیہ وسلم کیسے تھے؟ بیٹا!محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلمکے ایک خادم تھے ان کانام انسt ہے وہ روایت کرتے ہیں کہکان رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ازہراللون کان عرقہ کاللٗولو نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کارنگ سفیدتھا۔پسینے کاقطرہ ایسے نظر آتا تھاجیساکہ موتی نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلمکے رنگ میں سرخی وسفیدی کاحسین امتزاج ہے آنکھیں مبارک بڑی ہی پرکشش ہیں بال سیدھے مگر ہلکے سے گھنگھریالے ،ریش مبارک گھنی ہے دونوں مونڈھوں کے بیچ فاصلہ ہے آپ کی گردن مبارک جیسے چاندی کی چھاگل ،ہتھیلی اورقدم پرگوشت جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل طورپراس کی طرف رخ کرتے ۔آپصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پرپسینہ کے قطرے موتی کی مانند چمکتے ہیں۔نہ آپ پستہ قد تھے نہ دراز قامت ۔ آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی جوآپصلی اللہ علیہ وسلمکو یکایک دیکھتا مرعوب ہو جاتا ۔جو آشنا ہو کررہتا وہ محبت کرنے لگتا ۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سختی اورسب سے زیادہ جرأت مند تھے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بات کرنے کا طرز سب سے نرالااور ایفائے عہد میں پکے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلمکی طبیعت سب سے نرم۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رہن سہن سب سے اچھاتھا۔ میں نے آپ سانہ کسی کوپہلے دیکھانہ بعد میں۔آپصلی اللہ علیہ وسلمکے رخسار نہایت پیارے شفاف ہموار اورنرم تھے۔فخردوعالم صلی اللہ علیہ وسلمکی پیشانی مبارک کشادہ تھی،ابرو خم دار باریک اورگنجان تھے دونوں ابرو جدا جداتھے دونوں ابروکے درمیان ایک رگ تھی جوغصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔ ماں جی اتناکہہ کرخاموش ہوگئیں میں نے تڑپ کرکہاماں جی اوربتائیں نا!وہ کیسے تھے؟ ان کی آنکھیں مبارک کیسی تھیں؟ماں نے پھربتاناشروع کردیا کہ محسن اعظم eکی آنکھیںمبارک بڑی اورخوش رنگ تھیں جن کی پتلی نہایت سیاہ اور جن کی سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے پلکیں دراز تھیں آپ کے حسن سے نگاہ سیر نہ ہوتی تھی۔میں نے پھرسوال کیا:’’امی جان! ان کے دندان مبارک کیسے تھے اور…اور…اور ان کی ناک مبارک کیسی تھی ان کی گردن مبارک کیسی تھی؟‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے میرے طرف دیکھا اور فرمانے لگی :’’آپ کا منہ مبارک مناسب انداز کے ساتھ فراخ تھا ،دندان مبارک باریک چمکدار تھے سامنے کے دانتوں میں تھوڑا سا فاصلہ بھی تھاجس سے بولتے اورمسکرانے کے وقت ایک نور نکلتا تھا۔سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک مبارک پرایک چمک اورنور تھا جس کی وجہ سے ناک مبارک بلند معلوم ہوتی تھی۔ بیٹااور سنو !ان کی داڑھی مبارک بھر پوراورگنجان تھی جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کو اور ہی زینت دے دی تھی۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک ایسی پتلی اور خوبصورت تھی صفائی اورچمک میں چاندی جیسی تھی۔ حضرت علیt فرماتے تھے کہ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی اورآپ نبیوں کے ختم کرنے والے تھے۔ اچھابیٹا! اٹھواب سو جائو !کافی دیر ہوگئی ہے۔ آپ نے اسکول بھی جانا ہے ایک بات یاد رکھنا میری بیٹی کہ آپ اپنے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کاجذبہ رکھتی ہیں توان کی سنتوں پر عمل کرناہو گا ان کے احکام دین کوپڑھ کرآگے پہنچاناہو گا ۔ کرو گی نا ان کی سنتوں پرعمل! اوران کے علم دین کو اوراحادیث کوپڑھ کرآگے بیان کرو گی نا؟؟؟ جی امی میں وعدہ کرتی ہوں اپنے اللہ سے اور آپ سے کہ میں آپ کی سنتوں پر عمل ضرور کروں گی اوراحکام دین پڑھ کرآگے پہنچائوں گی ان شاء اللہ۔ امی جان نے میرے منہ کو چوما اور دعا دیتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں امی جان کے جانے کے بعد میں نے وضو کیا اور اپنے رب کے آگے سربسجدہ ہو گئی ان کے احسانات کو دیکھ کراوراپنی خطائوں کو دیکھ کررونے لگی پھر اپنے رب سے دعاکی کہ مجھے اپنے محبوب کی سنتوں پر عمل کرنے والا بنا دے۔اک امیدکودل میں لیے آنکھوں کوموند لیاکہ سرور کائنات امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ہ میری آنکھوں کے سامنے ہو پھرنجانے کب آنکھ لگ گئی۔
  10. i love sahabah

    جو چلے تو جا&#17

    کون ہے جو آج میرے ساتھ موت پر بیعت کرتا ہے یہ جوان رعنا کون ہے اس کی آنکھیں جوش جذبات میں انگارہ کیوں ہو رہی ہیں اس بھری جوانی میں تو ایسے نوجوان خوبصورت شریک حیات کی تلاش میں بنے سنورے رہتے ہیں لیکن اسے کیا ہوا!اس نے ہاتھ میں ننگی تلوار کیوں سونت رکھی ہے؟ چہرے مہرے سے بھی کسی اعلی خاندان کا لگتاہے سرداری کی نشانیاں اس کی کشادہ پیشانی پر واضح ہیں۔۔پھر یہ نعرہ کیساہے؟اسے موت سے عشق کیونکر ہوگیا؟شور اتنا تھاکہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ نسانی اجزاء ہوامیں اڑ رہے تھے کئی دن سے جاری جنگ آج اپنے عروج پر تھی وفادار گھوڑے پتھریلی زمین پر ٹاپوں سے چنگاریاں آڑاتے اپنے شاھواروں کولیے دشمن کی صفوں میں گھسے پڑے تھے عرب کے ریگستانوں میں پلے اس دھرتی کے نادرونایاب گھوڑوں کی ہنہناہٹ پرنعروں کا گمان ہوتاتھا۔ عرب کے مردان صحرائی شجاعت وبہادری کی لوریاں دی گئی تھی جنگی رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں پر جھپٹ رہے تھے سیاہ عماموں کی شلوں کو چہروں پرلپٹے ان شیروں کی آنکھیں یوں چمکتی تھیں کہ ان کے سامنے تلواروں کی چمک بھی ماند پڑجاتی تھی، عرب کے صحرائی شیروں کے تن پر کپڑے تو بوسیدہ تھے لیکن ان کے بازوئوں میں بجلیاں بھری تھیں توحید پر کامل یقین نے ان کو موت کے خوف یرموک کاوسیع میدان آج اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتے محسوس ہوتاتھا۔ ملک شام کی اس ذرخیز کو دریائے یرموک سیراب کرتا تھا اور میدان یرموک کے تین اطراف میں کافی فاصلے پر موجود پہاڑی سلسلے سے جوندی نالے بہتے تھے وہ بھی پہاڑوں کی زرخیز مٹی کو لاکر اس میدان کی بھینٹ چڑھادیاکرتے تھے۔ دریائے یرموک نے ایسا نظام کبھی نہ دیکھا تحا اس کی لہریں بارباراٹھ کر فاقہ کشی عربوں کا دیدارکررہی تھیں، چشم فلک حیرت سے ان پچیس ہزارجانبازوں کو تک رہی تھی جو لاکھ کے لشکر جرارکے مقابلے میں یوں کھڑے تھے کہ پہاڑوں کوبھی اپنی ثابت قدمی پر شرمندگی محسوس رہی تھی۔ باز نطینی سلطنت کے حکمران قیصر نے دوماہ سے زیادہ عرصہ سے یرموک کو اپنا جنگی ہیڈ کوارٹر دے رکھا تھا اورہر طرح کا سامان حرب اور نامور جنگجو یہاں اکٹھے کررہا تھا۔ سیدنا عمر فاروق کو روائے خلافت پہنے ابھی صرف دس روز ہوئے تھے آپ اس جنگ کے انجام کی خبر سننے کے انتظار میں کئی دن سے سو نہیں سکے تھے۔ عکرمہ پرزمین تنگ ہوگئی تھی۔ مدینہ کی نوزائیدہ اسلامی سلطنت کی فوج نے مکہ فتح کرلیاتھا اور عکرمہ کے بارے میں حکم تھاکہ جہاں ملے اسے قتل کردیاجائے عکرمہ جان بچا کر بھاگا لیکن مجاز کی زمین اسے پناہ دینے کو تیار نہ تھی چاروناچاریمن جانے کا ارادہ کیاساحل پر پہنچا ہی تھاکہ اس کی بیوی ام حکیم اسے تلاش کرتی ہوئی آپہنچیں عکرمہ !عکرمہ!رکو…رکو …… چلو میرے ساتھ میں تمہاری جان بخشی کا پروانہ لائی ہوں۔ عکرمہ کو اپنی سماعت پر دھوکے کا گمان ہواابوجہل کا بیٹا اور جان بخشی کا پروانہ……! لیکن……پھر فوراخیالات کا رخ بدل گیا……جس ہستی نے جان بخشی کی ہے وہ تو سراپا رحمت ہے تمام جہانوں کے لیے رحمت ۔۔اس بحر کرم کے سامنے عکرمہ کے جرائم کی کیاحیثیت؟ میں سرکاردوعالم کے خلاف لڑتارہاہوں……؟کیاآج ان رومیوں سے ڈرکربھاگ جائوں گا؟ بولوکون ہے؟ جوآج میرے ساتھ موت پر بیعت کرتا ہے؟عکرمہ کی آواز جوش سے کانپ رہی تھی عرب کا ایک سجیلا جوان تلوار لہرا کر چلایا۔میں آسمان اس بہادر کو دیکھنے کے لیے جھک آیا۔یرموک کی شوریدہ سر لہروں نے اس کو زیارت کو سراٹھایا۔دور بہت دور پہاڑوں چوٹیوں نے آنکھیں مل مل کر اس جوان کو پہنچاننے کی کوشش کی یہ تو ابو العاص کا بانکا صاحبزادہ ہے ہشام……! میں بھی موت پر بیعت کرتاہوں…… ایک اور شیر گرجا۔ یرموک کی دادی اس دھاڑسے ہل کر رہ گئی الہی یہ کن مائوں کے جنے ہیں ؟ان کو کن شیرنیوں کی گود میں پلنا نصیب ہواہے؟ موت کا خوف کیوں نہیں ان کے دل میں؟ کس دربار عشق سے فیض یافتہ ہیں یہ؟ چشم دھرنے ایسے نظارے اس سے پہلے کہاں دیکھے ہیں…… یہ کون سجیلا جوان ہے؟ کہیں پہ سہیل تو نہیں۔۔ہاں وہی بہادر ہے سہیل یہ عجیب جنگ تھی ایک طرف دو لاکھ کا لشکر جرار۔۔ تمام کے تمام کیل کانٹے سے لیس…… دنیا کی سپر پاور ہونے کے دعویدار۔۔عظیم سلطنت روما کی خاص الخاص شاہی فوج۔ دوسری طرف…… پچیس ہزار……صرف پچیس ہزار……اکثر کے تن پر کپڑے بھی پورے نہیں……جوپورے لباس میں ملبوس ہیں ان میں سے اکثر پیوندزدہ……گھوڑے بھی سب کے پاس نہیں……کچھ کے پاس تو تلواریں بھی نہیں……گاڑنے کی چوبیں اٹھائے کھڑے ہیں……لیکن دل میں صرف ایک ذات کاخوف……پیشانی جھکتی ہے تو اس کے آگے … دربارنبوت سے براہ راست فیض یافتہ ایثاروقربانی کے زندہ جاوید مثالیں……دن کو شہسوار اور راتوں کو نماز میں کھڑے ہوکر رونے والے زخموں سے چور آخری سانسیں لیتے عکرمہ نے ادھ کھلی آنکھوں سے اپنے چچازاد کو دیکھا جوپانی کی چھاگل اٹھائے ان پر جھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے فورا چھاگل کے منہ پر بندھی چمڑے کی باریک رسی کھولی۔عکرمہ کے ہونٹوں کو چھاگل کے منہ نے چھوا……پانی…… ہشام کی آواز عکرمہ کے کان میں پڑی اسی شیرنے کچھ دیر پہلے عکرمہ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی تھی…… عکرمہ کے ہونٹ پانی کو چھونے سے پہلے ہی بندہوگئے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں چچازاد کو اشارہ کیا کہ پہلے ہشام کو پلائو۔ ایثار پیشہ بھائی کو دیکھنے ہوئے ابوجہم محبت سے تیزی سے ہشام کی طرف بڑھے۔چھاگل کے منہ نے ابھی ہشام کے زخمی ہونٹوں کا بوسہ لیاہی تھا سہیل کی آواز کو کیسے بھول سکتے تھے یہ وہی سہیل تھے جنہوں نے ہشام کے فورا بعد عکرمہ کی جانب سے لگائی جانے والی موت کی صداپر لبیک کہا تھا۔ پہلے سہیل کو پانی پلائو…… زخموں سے چورہشام نے کہنا چاہا لیکن ان کی زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ ہشام نے سرکی حرکت سے اشارہ کیاکہ پہلے سہیل کو پانی پلائو ابوجہم تیزی سے سہیل کی طرف لپکے……لیکن……وہ حور ان بہشتی کے ہاتھ سے سلسبیل کے جام پینے ملاء اعلی کی طرف پرواز کرچکے تھے۔ابوجہم نے آہستگی سے ان کا سر واپس زمین پر رکھا اور ہشام کی طرف بڑھے کہ ان کو پانی پلائیں۔لیکن……ہشام وہ پانی کیسے پی لیتے جو سہیل کے زخمی گلے کو ترنہ کرسکا تھا……سہیل اور ہشام وہ دونوں بھائی……وہ دونوں صحرائی شیر……جنہوں نے یکے بعد دیگرے عکرمہ کی آواز پر لبیک کہاتھا……اسی طرح……وفا کی ایک نئی……انمٹ داستان یرموک کی سرخ مٹی پر رقم کرتے ہوئے اپنے رحیم وکریم خالق سے جاملے تھے ابوجہم نے نم آنکھوں سے اس ایثار پیشہ انسان کو دیکھا سہیل کی پیاس بجھانے کی خاطر خود اس دنیا سے پیاسا رخصت ہوگیا تھا اور پھر چھاگل تھامے اپنے چچازاد عکرمہ کی طرف بڑھے……اللہ اکبر الہی یہ دیوانے کس بستی کے رہنے والے ہیں؟انوکھی وضع…… سارے زمانے سے نرالے……!چشم فلک ایسے نظارے کہاں دیکھے تھے؟ یرموک کے وسیع میدان کو اپنی وسعت ان شیروں کی وسعت ظرفی کے سامنے تنگ پڑتی دکھائی دے رہی تھی……دریائے یرموک کی لہروں نے آخری مرتبہ اٹھ کر یہ نظارہ دیکھا اور پھر ان میں بھی ہمت نہ رہی……دور……بہت دور……فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ایثار کی یہ لازوال مثال دیکھی……آسمان رو پڑا……زمین کا کلیجہ پھٹنے لگا……عکرمہ کی روح بھی اپنے وفادار ساتھیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے……ابوجہم کی چھاگل سے اپنے لبوں کو ترکیے بغیر……اپنے آقا سے ملاقات کے شوق میں……اس دارفانی میں ایک لازوال داستان وفا رقم کر کے……عرش الہی کے نیچے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بیٹھے ایک سبز پرندے کے پیٹ میں سما گئی ……یہ سبزپرندہ اب قیامت تک عرش الہی کے سائے میں رہے گا……لیکن میں نے جب بھی چشم تصور میں یرموک کے میدان کو دیکھا تو اسے یہ یہی سوچنے ہوئے پایاکہ میں اپنے سینے پر لڑی جانے والی اس وحشت ناک جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار رومیوں کے قتل اور عبرت ناک شکست پر جشن منائوں……لیکن ہزار مسلم شہداء کا سوگ منائوں……وہ شہداء جن کے سردار عکرمہ……ہشام اور سہیل تھے
  11. i love sahabah

    Imam Abu Hanifa(Ra) Ki Tanqees

    امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تنقیصِ شان پر مبنی اقوال نقل کرنے کا حکم فضیلۃ الشیخ صالح بن عبد العزیز آل شیخ سوال:آپ کی عبد اللہ بن امام احمدرحمہ اللہ کی کتاب میں وارد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں خلق قرآن کے (کفریہ) عقیدے پر وفات پانے کی جو تہمت ہے اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب یہ ایک اچھا سوال ہے،اور واقعی یہ عبداللہ بن امام احمدرحمہ اللہ کی کتاب‘‘کتاب السنہ’’میں موجود ہے۔بات یہ ہے کہ عبداللہ بن امام احمدرحمہ اللہ کے دور میں فتنہ خلق قرآن بہت بڑھ چکا تھا،اور لوگ اکثر ان چیزوں سے استدلال کرتے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب تھیں،حالانکہ درحقیقت آپ ان سے بری تھے۔ اس کے علاوہ بھی اور چیزیں تھیں جیسے معتزلہ تاویلِ صفات کےبارے میں آپ ہی سے ایسی باتیں نقل کیا کرتے تھے،جن سے درحقیقت آپ بری تھے۔انہی میں سے بعض باتیں عوام میں اتنی زبان زد عام ہوگئی کہ یہی باتیں علماء کرام کے سامنے پیش ہوئیں اور انہوں نے لوگوں کے ظاہر قول پر ہی حکم فرما دیا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا باقاعدہ مذہب اور مکتبہ فکر بننے سے پہلے کی بات ہے۔چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات سےقریب کا ہی زمانہ تھا اور اقوال نقل کرنے والےامام سفیان ثوری،سفیان بنی عیینہ،وکیع اور فلاں فلاں جیسے بڑے علماء اکرام سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں اقوال نقل کرتے۔لہٰذا اس زمانے میں حاجت اس بات کی متقاضی تھی کہ امام عبداللہ بن احمدرحمہ اللہ اپنے اجتہاد سے امام صاحب کے بارے میں علماء اکرام کے اقوال نقل فرمائیں،لیکن اس زمانے کے بعد جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ علماء کرام کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ اسے مزید روایت نہ کیا جائے،اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اب ہمیشہ صرف ذکر خیر ہی کیا جائے۔ یہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے زمانے کے بھی بعد کی بات ہے،کیونکہ جس طرح امام احمدرحمہ اللہ کے دور میں بھی کبھی کبھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کیا گیا اسی طرح امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے دور میں تھا،جس کی وجہ سے آپ نے اپنی مشہور و معروف تاریخ میں ایسی روایات نقل فرمائی ہیں(جن میں امام ابو حنیفہ پر کلام ہے)جن پر اس کے بعد بھی رد ہوتا رہا یہاں تک کے چھٹی اور ساتویں ہجری میں منہجِ سلف کو استقرار حاصل ہوا(یعنی مکمل اصولوں پر کتابیں مدون ہوئیں وغیرہ)،اور اسی سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنا مشہور و معروف رسالہ‘‘رفع الملام عن الائمۃ الاعلام’’(مشہور آئمہ کرام پر کی جانے والی ملامتوں کا زالہ) تصنیف فرمایا،اسی طرح اپنی باقی تمام کتابوں میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر تمام آئمہ کا ذکر خیر ہی فرمایا۔ان کے اورتمام آئمہ کے ساتھ رحمدلانہ سلوک فرمایا اورسوائے ایک بات کے اور کوئی تہمت آپ کی جانب منسوب نہیں فرمائی اور وہ یہ ارجاء کا قول وہ بھی ارجاء الفقہاء(نہ کہ غالیوں کی الارجاء اس کے سوا ان تمام تہمات کا جو سلسلہ چلا آرہا تھا اسے نقل نہیں فرمایا،کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب بنام‘‘فقہ الاکبر’’اوردوسرے رسائل موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بالجملہ سلف صالحین کے ہی عقیدے و منہج کے تابع تھے سوائے اس مسئلے ارجاء یعنی ایمان کے نام میں عمل کو داخل نہ سمجھنا کے۔ چنانچہ اسی نہج پر علماء کرام گامزن رہے جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا سوائے(جیسا کہ میں نے بیان کیا)جانبین(یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلو کرنے والوں اوردوسری جانب ان کی شان میں تنقیص کرنے والوں)کی طرف سے کچھ باتیں ہوتی رہیں،ایک جانب وہ اہل نظر جو اہلحدیثوں کو حشویہ اور جاہل پکارتے تھے اور دوسری جانب ان کی طرف سے بھی جو اہلحدیث اور اثر کی جانب منسوب تھے انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر کلام کیا یا پھر حنفیہ پر بطور ایک فقہی مکتبہ فکر یا ان کے علماء پر کلام کیا۔جبکہ اعتدال و دسط پر مبنی نقطہ نظر وہ ہے جو امام طحاوی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا اور اسی پر آئمہ سنت قائم تھے پھر جب امام شیخ محمدبن عبد الوہاب رحمہ اللہ تشریف لائےاسی منہج کو لوگوں میں مزید پختہ فرمایا چنانچہ انہوں نے کسی امام کا ذکر نہیں فرمایا مگر خیر و بھلائی کے ساتھ اور یہ منہج بیان فرمایا کہ تمام آئمہ کرام کے اقوال کو دیکھا جائے اور جو دلیل کے موافق ہو اسے لے لیا جائے،کسی عالم کی غلطی یا لغزش میں اس کی پیروی نہ کی جائے،بلکہ ہم اس طرح کہیں کہ یہ ایک عالم کا کلام ہے اور اس کا اجتہاد ہے لیکن جو دوسرا قول ہے وہ راجح ہے۔ اسی لئے بکثرت مکاتب فکر میں:‘‘یہ قول راجح ہے اور یہ مرجوع ہے’’ کی باتیں عام ہو گئی اور اسی منہج پر علماء کرام تربیت پاتے رہے یہاں تک کہ ملک عبد العزیز کے دور کی ابتداء میں جب وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے کتاب السنۃ عبداللہ بن امام احمدرحمہ اللہ شائع کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت اس کی طباعت کی نگرانی اور مراجع پر شیخ علامہ عبداللہ بن حسن آل شیخرحمہ اللہ مامورتھے جو اس وقت مکہ مکرمہ کے رئیس القضاۃ(چیف جسٹس)تھے۔پس آپ نے پوری فصل ہی طباعت سے نکلوا دی(جس میں امام ابو حنیفہ پر کلام تھا)،اسے شرعی حکمت کے تحت شائع نہیں کیا گیا کیونکہ اس قسم کی باتوں کا اپنا وقت تھا جو گزر چکا۔ اس کے علاوہ یہی اجتہاد اور لوگوں کی مصالح کی رعایت کرنے کا تقاضہ تھا کے اسے حذف کر لیا جائے اورباقی نہ رکھا جائے لہٰذا یہ امانت میں خیانت نہیں تھی،امانت تو یہ ہے کہ لوگ ان نقول کی وجہ سے جو اس کتاب میں(امام ابو حنیفہ کے خلاف) منقول تھےعبداللہ بن امام احمدرحمہ اللہ نے جو اپنی کتاب میں سنت و صحیح عقیدہ بیان فرمایا ہے اس کے پڑھنے سے رک جاتے۔پس یہ پوری کتاب اس فصل کے بغیر شائع ہوئی جو لوگوں میں اور علماء کرام میں عام ہوئی اور یہی عبداللہ بن امام احمدرحمہ اللہ کی کتاب السنۃ سمجھی جاتی رہی۔ آخر میں اب یہ کتاب ایک علمی رسالہ یا علمی ریسرچ میں شائع ہوئی اور اس میں وہ فصل داخل کر دی گئی ہے،اوریہ مخطوطات میں موجود ہے معروف ہے۔چنانچہ اس فصل کو نئے سرے سے داخل کیا گیا یعنی اس میں واپس لوٹا دی گئی اس دعوت کے ساتھ کے امانت کا یہی تقاضہ ہے، حالانکہ بلاشہ یہ بات صحیح نہیں،کیونکہ علماء کرام نے شرعی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے،اسی کتابوں کی تالیف سے جو علماء کرام کا اصل مقصد ہوتا ہے اسے جانتے ہوئے،زمان ومکان وحال کے اختلاف کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کیا تھا۔ساتھ ہی جو آخر میں عقیدہ مقرر ہو چکا ہے اور اہل علم کا اس بارے میں جو کلام ہے سے علماءکرام واقف تھے۔ جب یہ طبع ہوا تو ہم فضیلۃ الشیخ صالح الفوزان کے گھر پر دعوت میں شریک تھے،آپ نے سماحۃ الشیخ عبد العزیزرحمہ اللہ کو دعوت فرمائی تھی اور ان کے سامنے کتاب السنۃ کی طبع اولی جس میں علماء کرام کی طرف سے وہ فصل شامل نہیں کی گئی تھی جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کلام ہوا تھا اور آخری طبع بھی پیش کی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور اس میں یہ فصل شامل کی گئی ہے،پس شیخ رحمہ اللہ نے مجھ سےشیخ فوزان کی مجلس میں فرمایا کہ: ‘‘الذی صنعہ المشایخ ھو المتعین و من السیاسۃ الشرعیۃ أن یحذف و ایرادہ لیس منا سبا۔وھذا ھو الذی علیہ نھج العلماء’’ جو کام (فصل کو حذف کرنے کا)مشائخ کرام نے کیا تھا وہی متعین بات تھی اور اسے حذف کرنا شرعی سیاست کے عین مطابق تھا اور اسے واپس سے داخل کر دینا مناسب نہیں،یہی علماء کرام کا منہج ہے۔ تو اب معاملہ اور بڑھ گیا اور ایسی تالیفات ہونے لگیں جن میں امام ابوحنیفہ پر طعن کیا گیا ہے یہاں تک انہیں ابوجیفہ تک کہا جانے لگا اور اس جیسی دوسری باتیں،جو بلاشبہ ہمارے منہج میں سے ہے نہ ہی علماء دعوت اور علماء سلف کا یہ منہج تھا کیونکہ ہم تو علماء کرام کا ذکر نہیں کرتے مگر خیر و بھلائی کے ساتھ خصوصاً آئمہ اربعہ کا کیونکہ ان کی ایسی شان اور مقام ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا،البتہ اگر وہ غلطی کر جائیں تو ان کی غلطی میں ان کی پیروی نہیں کرتے۔
  12. i love sahabah

    Mirza Qadyani Ka Zalzala.

    تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم مرزا قادیانی کا زلزلہ یا قادیانیوں کے لئے زلزلہ؟ دوستو مرزا صاحب نے 8 اپریل 1905 کو ایک اشتہار شائع کیا اس میں لکھا کہ (آج رات تین بجے کے قریب خدا کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی جو ذیل میں لکھی جاتی ہے - تازہ نشان کا دھکا - زلزلة الساعه ... مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکا لگے گا وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا) "مجموعہ اشتهارات جلد 3 صفحہ 522 "۔ مرزا صاحب کو اس زلزلہ کی اتنی خوشی تھی کہ 18 اپریل 1905 کو ایک اور اشتهار جاری کیا اس میں لکھا کہ (النداء من وحى السماء یعنی ایک زلزلہ عظیمہ کی نسبت پیش گوئی بار دوم وحی الہی سے، اس میں لکھا کہ (9 اپریل 1905 کو پھر خدا تعالى نے مجھے ایک سخت زلزلہ کی خبر دی ہے جو نمونہ قیامت اور ہوش ربا ہوگا) آگے لکھا کہ (میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ زلزلہ عظيم الشان حادثہ ہوگا جو محشر کو یاد دلادےگا ) "مجموعه اشتهارات جلد 3 صفحات 525 - 526 "۔ مرزا صاحب کو اس پر بھی چین نہ آیا 29 اپریل 1905 کو پھر تیسری بار زلزلہ کے بارے میں اشتهار شائع کیا ، اسمیں بھی سخت تباہی کی خبر دی اور لکھا کہ (خدا نے اسکا نام بار بار زلزلہ رکھ دیا ہے) "مجموعه اشتهارات جلد 3 صفحہ 535 ). مرزا صاحب نے زلزلہ آنے کی خوشی میں اپنا گھر چھوڑ دیا اور ایک باغ میں جاکر خیمے لگا دیےاور اپنے مریدوں سے بھی کہا کہ وہ بھی کچھ دنوں کے لئے یہاں خیمے لگا لیں (ايضا صفحہ 540۔ مگر افسوس کے زلزلہ نہیں آیا اور مرزا صاحب دھکے پے دھکا کھاتے رہے ، یہ دھکا ایسا تھا کہ کچھ عرصے کیلیۓ مرزا صاحب نے زلزلہ کا اشتهار دینا بھی بند کر دیا اور اسکا نام لینے سے انکی جان نکلنے لگی ، دس گیارہ مہینے خیریت سے گزر گۓ ، نہ کوئی زلزلہ آیا نہ کوئی اشتهار شائع ہوا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ابھی لوگوں کے اس سکھ پر چند ہی دن گزرے تھے کہ مرزا صاحب نے پھر 2 مارچ 1906 کو ایک اشتهار شائع کر کیا اور اسمیں اپنی یہ وحی بیان کی (آج یکم مارچ کو صبح کے وقت پھر خدا نے یہ وحی میرے پر نازل کی جسکے یہ الفاظ ہیں زلزلہ آنے کو ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے وہ ابھی نہیں آیا بلکہ آنے کو ہے (مجموعه اشتهارات جلد 3 صفحہ 548۔ مرزا صاحب کے مسلسل اشتهارات سے انکے مخالفین پر تو کیا اثر ہوتا خود قادیانیوں میں چھ میگوئیاں ہونے لگیں کے اگر واقعی کسی زلزلے نے آنا ہے اور اس زلزلے نے مرزا صاحب کی سچائی کا نشان بننا ہے تو وہ آتا کیوں نہیں ؟ کیا یہ زلزلہ مرزا صاحب کی زندگی میں آ جاۓ گا ؟ اگر نہیں آیا تو مرزا صاحب کے بارے میں کیا راۓ قائم کی جاۓ گی ؟ مرزا صاحب کو جب اپنے مریدوں کے یہ سوالات پہنچے تو انہوں نے کہا فکر نہ کرو زلزلہ میری زندگی میں ہی آے گا ، مرزا صاحب ان دنوں "ضميمه براهين احمديه" لکھ رہے تھے اس میں انہوں نے لکھا (اب ذرا کان کھول کر سن لو کہ آیندہ زلزلہ کی نسبت جو میری پیش گوئی ہے اسکو ایسا خیال کرنا کہ اسکے ظہور کی کوئی بھی حد مقرر نہیں کی گئی یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ بار بار وحی الہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیش گوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک میں اور میرے ہی فائدہ کیلیۓ ظہور میں آئیگی) "ضميه براهين احمديه حصه پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 258 "۔ اور اسی کتاب "ضميمه براهين احمديه" کے صفحہ 253 پر مرزا صاحب نے صاف صاف الفاظ میں یہ بھی لکھ دیا کہ (آیندہ زلزلہ کی نسبت جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اسکا ظہور نہ ہوا تو میں خدا کی طرف سے نہیں ) دوستو مرزا صاحب نے صاف صاف لکھ دیا کہ یہ زلزلہ اگر انکی زنگی میں نہ آیا تو مرزا صاحب خدا کی کی طرف سے نہیں۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب " براهين احمديه حصہ پنجم" 1905 میں لکھنی شروع کی اور اسکا "ضمیمہ" اسکے بعد لکھا یہ کتاب 15 اکتوبر 1908 (یعنی مرزا صاحب کے فوت ہونے کے تقریباً پانچ مہینے کے بعد) شائع ہوئی ، اب میں تمام احمدی قادیانی حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ کیا براهين احمديه حصه پنجم کی یہ عبارت لکھنے کے بعد مرزا صاحب کی زندگی میں کوئی زلزلہ آیا تھا؟؟ اگر نہیں آیا تھا اور یقیناً نہیں آیا تھا تو آپ ہی بتائیں کہ مرزا صاحب پر آنے والی زلزلہ کی بار بار وحی شیطانی نہیں تو اور کیا تھی؟ اگر یہ وحی الله کی طرف سے ہوتی تو ضرور پوری ہوتی .. میں احمدی دوستوں سے ایک بار پھر دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ مرزا صاحب کی اس عبارت کو پھر غور سے پڑھیں (آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیش گوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اسکا ظہور نہ ہوا تو میں خدا کی طرف سے نہیں) ...ضميمه براهين احمديه میں یہ بات لکھنے کے بات مرزا صاحب کی زندگی میں کوئی زلزلہ نہیں آیا اور مرزا صاحب بقلم خود جھوٹے ٹھہرے اور انہوں نے خود فیصلہ دے دیا کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں۔ غلامِ خاتم النبیین ﷺ محسن اقبال
  13. i love sahabah

    Wafat-E-Eesa(As) Aor Ummat-E-Muslima

    تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم وفات عیسیٰ علیہ سلام کا عقیدہ اور امت مسلمہ قادیانیوں کا دعوی ہے کہ قرآن اور احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام وفات پا چکے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی حیات کا عقیدہ غلط ہے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر قرآن سے اور احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام وفات پا چکے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین اور اس کے بعد آنے والے اکابرین اور محدثین کا اور قادیانیوں کے تسلیم شدہ مجددین کا یہی عقیدہ ہونا چاہیے اور اس طرح تمام امت مسلمہ کا یہی عقیدہ ہونا چاہیے جو قرآن سے ثابت ہے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمایا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن اور احادیث سے وفات عیسیٰ علیہ سلام ثابت ہے حیات عیسیٰ علیہ سلام کا عقیدہ امت مسلمہ میں کب اور کیسے آیا؟ اگر بقول قادیانیوں کے امت مسلمہ میں حیات عیسیٰ علیہ سلام کا عقیدہ عیسایئوں سے آیا اور حیات عیسیٰ قادیانیوں کے نزدیک غلط ہے تو اس وقت کے مسلم اکابرین اور محدثین نے اور قادیانیوں کے تسلیم شدہ مجددین نے کب اس عقیدے کے خلاف آواز اٹھائی اور کہاں حیات عیسیٰ علیہ سلام کا انکار کیا؟ کیا قادیانی ثابت کر سکتے ہیں کہ جن 14 صدیوں کے اکابرین کو وہ مجدد مانتے ہیں انہوں نے وفات عیسیٰ علیہ سلام کا عقیدہ رکھا ہو اور حیات عیسی ٰ علیہ سلام کا رد کیا ہو اور یہ عقیدہ رکھا ہو کہ عیسیٰ علیہ سلام کی قبر کشمیر میں ہے؟ کیا کوئی قادیانی یہ بتا سکتا ہے کہ پوری امت مسلمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک کسی محدث ، مفسر یا قادیانیوں کے ےسلیم شدہ کسی مجدد نے یہ عقیدہ رکھا ہو یا بیان کیا ہو کہ مسیح ابن مریم علیہ سلام نہیں آئیں گے بلکہ ان کا مثیل آئے گا؟ اگر حیات عیسیٰ علیہ سلام کا عقیدہ غلط تھا تو مرزا قادیانی نے مسیح کا دعوی کرنے سے پہلے حیات عیسی ٰعلیہ سلام کا عقیدہ کیوں اپنایا اور اپنا عقیدہ قرآن کے خلاف کیوں رکھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی تمام علامتوں کی نشاندہی کی ہے اور کئی بار مسیح ابن مریم علیہ سلام کے قیامت کے نزدیک آنے کی خبر دی ہے. کیا کوئی قادیانی بتا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ قیامت کے نزدیک مسیح ابن مریم علیہ سلام خود نہیں آئیں گے بلکہ ان کا مثیل آئے گا اور مسیح ابن مریم علیہ سلام کی قبر کشمیر میں ہے؟ پوری امت مسلمہ کا حیات عیسیٰ علیہ سلام کے عقیدہ پہ اجماع ہے اور مرزا قادیانی کہتا ہے کہ وہ امور جن پہ سلف کا اجماع تھا اور وہ امور جو اہلسنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ یہئ ہمارا مذہب ہے. (ایام صلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 323) اب یا تو قادیانی یہ ثابت کریں کہ وفات عیسیٰ علیہ سلام پہ اجماع ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور محدثین اور قادیانیوں کے تسلیم شدہ مجددین اس عقیدہ پہ ہیں اور انہوں نے حیات عیسی علیہ سلام کا رد کیا ہے اور عیسی علیہ سلام کی قبر کشمیر میں ہے یا پھر یہ تسلیم کر لیں کہ مرزا قادیانی کا یہ کہنا جھوٹا ہے کہ وہ اجماع کو فرض مانتا ہے اور تسلیم کرتا ہے۔ غلامِ خاتم النبیین ﷺ محسن اقبال
  14. Asalam o alikum to all muslims مرزا قادیانی نے نبی ہونے کا دعوی کیا لیکن قادیانی لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے دیتے ہیں کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے بلکہ مھدی اور مسیح مانتے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانتے ہیں. اب مرزا مسرور نے اپنی جماعت احمدیہ کو کہا ہے کہ وہ کھل کے اقرار کریں کہ مرزا قادیانی نبی ہے اور اللہ کی طرف سے آیا ہے. اب قادیانی جماعت کے اس واضح اقرار کے بعد تو بلکل واضح ہو گیا ہے کہ قادیانی جماعت اور تمام قادیانی مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں اور وہ قادیانی جو مرزا قادیانی کی نبوت کا اعتراف نہیں کرتے وہ صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں
  15. i love sahabah

    Pyare Nabi(Saw) Hum Sharminda Hain

    Asalam o alikum to all muslims
×

Important Information

We have placed cookies on your device to help make this website better. You can adjust your cookie settings, otherwise we'll assume you're okay to continue.