i love sahabah 14 Posted August 29, 2014 طلحہ السیفچار دن قبل ’’غزہ‘‘ میں ایک خاتون اور اس کے نو عمر بچے کا جنازہ تھا۔’’غزہ‘‘ میں تو روزانہ درجنوں جنازے ہوتے ہیں مگر یہاں کوئی خاص بات تھی کہ پورا شہر ہی چلا آ رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے۔یہ سب لوگ رو رہے تھے،شدت جذبات سے بے قابو ہو رہے تھے اور زبردست نعرے بازی کر رہے تھے،شدید خطرہ تھا کہ اسرائیل اس بے پناہ ہجوم پر اپنے طیاروں کے ذریعے بم گرا دے اور یوں درجنوں اور لوگ شہید ہو جائیں مگر یہ سب اس سے بے پرواہ ہر طرف سے امڈے آ رہے تھے اور یہ سب اس شخص سے اپنی والہانہ عقیدت اور قلبی محبت کا اظہار کر رہے تھے جس کی اہلیہ اور دو بچوں کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا۔ہر شخص کی زبان پر اسی کا نام تھا اور اسی کا تذکرہ…کون ہے وہ؟…وہ شخص جو چند قدم اپنے قدموں پر نہیں چل سکتا مگر اس نے گزشتہ بارہ سال سے اسرائیل کے قدموں کو غزہ سے روک رکھا ہے…وہ شخص خود وہیل چیئر پر ہے لیکن اس نے دنیا کی تیسری سب سے بڑی عسکری طاقت کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا ہے…جس کی صرف ایک آنکھ ہے لیکن وہ سب کچھ اس کی نظر میں ہے جسے چھپانے کے لئے اور محفوظ رکھنے کے لئے دنیا کا سب سے مہنگا اور سب سے جدید سیکیورٹی سسٹم وضع کیا گیا ہے…جسے بارہ سال سے دنیا نے نہیں دیکھا لیکن اسرائیل کا ہر شہری غزہ سے آنے والے ہر میزائل کے ساتھ اسے دیکھتا ہے…جس نے اپنا نام مٹا رکھا ہے لیکن اسرائیلی اور مغربی میڈیا پر آج کل اسی کے نام کی سب سے زیادہ گونج ہے…جسے قتل کرنے کی کوششوں پر اسرائیل اپنے بقول سب سے زیادہ مال خرچ کر چکا ہے اور تمام ذرائع بروئے کار لا چکا ہے لیکن وہ زندہ ہے اور اس کی زندگی اسرائیل اور یہودیوں کی موت بنتی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے سرکاری ترجمان جریدے’’ یدیعوت‘‘ کے الفاظ ہیں ’’وہ‘‘ ہمارا سب سے بڑا خوف ہے، ہماری سب سے بڑی بیماری ہے،وہ سب سے خوفناک ہتھیار ہے،وہ سانپ کا سر ہے،وہ موت کا پیغام ہے اور جب تک وہ زندہ ہے ہمارا وجود خطرے میں ہے …وہ دورحاضر کا ’’ابن بطال‘‘ ہے جس کے نام سے کفار کی مائیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں۔فرانسیسی جریدے’’لوموند‘‘ کے مطابق وہ ایک افسانوی ہیرو اور ایک دیومالائی کردار جیسا ہے،شاید آنے والے زمانے میں اس کی بھی اساطیری داستانیں لکھی جائیں۔ایک سایہ جو یہودیوں کو ہمیشہ ڈراتا رہے گا…جی ہاں! وہ ہے ’’محمد الضیف‘‘حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ کا کمانڈر اعلیٰ…جنہیں شہید کرنے کی یہ چوتھی کوشش ناکام ہوئی مگر ان کی باوفا بیوی اور سات ماہ کے معصوم بیٹے نے جنت کو کوچ کیا۔آج ان کا جنازہ تھا اور غزہ کا ہر شہری اپنے عظیم قائد سے اظہار محبت کے لئے کھنچا چلا آیا،جنہیں اطلاع نہ ہو سکی وہ بعد میں افسوس کرتے دکھائی دیئے…’’محمد الضیف‘‘ کون ہیں؟…ہمیں اگر طاہر القادری سے فرصت ہوتی تو ہم بھی ان کے بارے میں ضرور جانتے ہوتے جو امت کے حقیقی قائدین ہیں۔لیکن ہماری بد اعمالیوں نے ہمیں ان لوگوں میں الجھا رکھا ہے جن کا کردار پڑھ کر ابکائیاں آتی ہیں۔ایسا شخص ہمارے ملک کے لاکھوں لوگوں کا مقتدا ہے جسے ’’طاہر‘‘ کہیں تو لفظ ’’طہارت‘‘ کا معنی الٹنا پڑتا ہے اور ’’القادری‘‘ کہتے ہوئے اللہ والوں کے ایک پورے عظیم سلسلے کی شان میں گستاخی ہوتی ہے۔بہرحال دفع کیجئے آئیے اس شخص کے تذکرے سے اپنی محفل کو معطر کرتے ہیں جس کا نام ایک پوری قوم کو لڑنے،مرنے اور قربانیاں دینے کا حوصلہ بہم پہنچاتا ہے اور عزائم کو زندہ کرتا ہے…فرانسیسی صحافی’’ ایلین سالون‘‘ نے معروف جریدے ’’لاموند‘‘ میں اس عظیم شخصیت کی سوانح و کردار پر ایک تحریر لکھی ہے۔اس کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔عربی کا ایک مقولہ ہے:الفضل ما شہدت بہ الاعداء ( مرتبہ و مقام وہ ہوتا ہے دشمن بھی جس کی گواہی دے)کے مصداق ایک غیر مسلم کے ان کے بارے میں خیالات ملاحظہ کیجیے:’’محمد الضیف‘‘ جن کا اصل نام ’’محمد دیَّاب المصری‘‘ہے۔1965ء میں خانیونس کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں ’’الاخوان المسلمون‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔90ء کی دہائی میں حماس کے معروف عسکری قائد یحیی عیاش شہید کے ساتھ ملے اور حماس کے عسکری ونگ میں ایک معمولی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔اپنی انتھک محنت اور ذہانت کے سبب کچھ ہی عرصے میں اہم ذمہ داریوں تک پہنچ گئے۔اسرائیل کے انٹیلی جنس ذرائع کہتے ہیں کہ انہیں 90ء کی دھائی میں ہی علم ہو گیا تھا کہ ’’محمد الضیف‘‘ حماس کے اہم عسکری ذمہ دار بن چکے ہیں لیکن ان کے منظر عام پر نہ آنے اور شہرت سے دور رہنے کی پختہ عادت کی وجہ سے اسرائیلی حکومت انہیں ایک بڑے خطرے کے طور پر نہ بھانپ سکی،اسی دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا لیکن تعارف حاصل نہ ہو سکنے کی بنیاد پر تیرہ ماہ بعد اسرائیلی حکومت نے انہیں رہا کر دیا،اگر وہ حقیقت حال سے واقف ہوتے تو ایسا ہرگز نہ کرتے۔اسی طرح 1994ء میں انہیں ’’الفتح‘‘ کی فلسطینی اتھارٹی نے بھی قید کیا مگر انہیں بھی چودہ ماہ کے لگ بھگ عرصہ جیل میں رکھ کر انہیں رہا کرنا پڑا کیونکہ وہ مکمل غیر عسکری عنصر کے طور پر جانے گئے تھے۔یحیی عیاش(حماس کے میزائل سازی پروگرام کے بانی) کی شہادت کے بعد ’’صلاح شحادہ‘‘ القسام کے کمانڈر اعلی بنے اور انہوں نے یحیی عیاش کے انتقام کی غرض سے اسرائیل کے اندر فدائی حملوں کا سلسلہ شروع کرایا،اس پوری کارروائی کی نگرانی اور پلاننگ ’’محمد الضیف‘‘ نے کی اور اس وقت وہ ایک حقیقی خطرے کے طور پر معروف ہوئے اور ان کا نام ہر طرف گونجنے لگا۔فدائی حملوں کا یہ سلسلہ 2006ء تک جاری رہا اور اس میں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچا۔جولائی 2002ء میں اسرائیل نے ایک فضائی حملے میں ’’صلاح شحادہ‘‘ کو نشانہ بنایا اور وہ شہید ہو گئے۔ان کے بعد حماس کی طرف سے باضابطہ اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ ’’القسام‘‘ کا کمانڈر اعلی کس کو بنایا گیا ہے لیکن وہ ’’محمد الضیف‘‘ ہی تھے اور اس بات کا علم دنیا کو 2012ء میں منظر عام پر آنے والی اس ویڈیو میں ہوا جس میں ’’محمد الضیف‘‘ ایک سائے کی طرح نظر آئے اور انہوں نے اسرائیل کو چیلنج کیا کہ اب جب بھی اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملہ کیا اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور پھر انہوں نے جو کہا اسے سچ کر دکھایا۔2007ء سے اب تک اسرائیل جب بھی غزہ کی زمین پر آیا ہے اسے شدید نقصان اٹھا کر بھاگنا ہی پڑا ہے اور یہ سب ’’محمد الضیف‘‘ کی اس جنگی حکمت عملی سے ممکن ہوا ہے جو انہوں نے خاموشی سے بنائی،پس پردہ رہ کر بروئے کار لائی اور خود کو پوشیدہ رکھنے کی کامیاب اسٹرٹیجی اختیار کر کے اسرائیل کو اس سے دھوکے میں رکھا۔اسی دوران ’’محمد الضیف‘‘ ایک حملے میں زخمی ہوئے اور ان کی ایک آنکھ شہید ہو گئی۔اس حملے کے بعد انہوں نے اپنے قریبی ساتھی ’’محمد الجعبری‘‘ کو القسام کا کمانڈر بنا دیا اور خود غائب ہو گئے۔شاید ان کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اسرائیل الجعبری کے پیچھے لگا رہے گا وہ اس دوران اپنا کام سر انجام دیتے رہیں گے۔اور ایسا ہی ہوا۔ 2012ء میں اسرائیل الجعبری کو بھی فضائی کارروائی میں نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔’’محمد الضیف‘‘ ان کے جنازے پر آئے اور پھر پس پردہ چلے گئے۔حماس کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’الجعبری‘‘ کی شہادت کے بعد ’’محمد الضیف‘‘ نے القسام کی جنگی حکمت کو مکمل طور پر نیا رخ دیا ہے اور انتہائی خفیہ انداز میں تمام ترتیبات کو ازسرنو اس طرح منظم کیا ہے کہ اسرائیل کو اسے سمجھنے میں بہت سا وقت لگ جائے گا۔حالیہ حملہ جس میں ان کی اہلیہ اور بچے کی شہادت ہوئی ان پر اسرائیل کی طرف سے پانچواں حملہ ہے جس سے وہ بچ نکلے ہیں۔اس سے پہلے 2012ء کی اسرائیلی کارروائی کے دوران ان کی گاڑی پر ’’اپاچی‘‘ہیلی کاپٹر سے شیلنگ کی گئی،گاڑی مکمل تباہ ہو گئی، ان کے دونوں رفقاء بھی شہید ہو گئے لیکن وہ باوجود معذوری کے سالم رہے اور بچ نکلے،یہ ایک معجزہ نما فرار تھا اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کافی وقت لگا اور جب ان کا بچ نکلنا یقینی طور پر ثابت ہو گیا تو یہ اس کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا۔’’محمد الضیف‘‘ کو پوشیدہ رہنے کا اس قدر اہتمام ہے کہ ان کے سسر مصطفی العصفور بتاتے ہیں کہ انہوں نے ’’محمد الضیف‘‘ کو صرف ایک بار دیکھا جب وہ ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنے 2007ء میں ان کے گھر آئے تھے۔انہوں نے اپنی بیٹی سے اس کا ذکر کیا تو وہ خوشی سے تیار ہو گئی،خود انہوں نے بھی اسے اپنے لئے قابل فخر و اعزاز سمجھا۔اس کے بعد انہوں نے ’’محمد الضیف‘‘ کو نہیں دیکھا اور نہ ہی بیٹی اور نواسے کو شہادت سے پہلے کبھی دیکھاحالانکہ جس گھر میں یہ لوگ شہید ہوئے وہ غزہ کے عین وسط میں واقع ہے۔غزہ یونیورسٹی کے پروفیسر ’’ھانی بسوس‘‘ کا کہا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ ایک سال سے زائد عرصہ ایک کمرے میں بند رہ کر بخوشی اور با آسانی گذار سکتے ہیں،وہ بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں،ان کے روابط انتہائی محدود ہیں،انہیں اپنے اوپر مکمل ضبط ہے اور وہ ایک انفرادی خصوصیات کے حامل انسان ہیںاور رپورٹ کے آخری الفاظ ملاحظہ فرمائیں:’’محمد الضیف‘‘ 2014ء میں القسام کے قائد اعلی کے طور پر باضابطہ سامنے آ گئے ہیں۔اس وقت ان کے کندھے پر بھاری ذمہ داریاں ہیں اور ہاتھ میں بہت سے کارڈ ہیں جنہیں وہ کامیابی سے کھیل رہے ہیں۔اسرائیل کا خیال تھا کہ وہ اس کارروائی میں ضرور نشانہ بن جائیں گے کیونکہ یہ آپریشن بہت طویل محنت کے بعد اور پختہ معلومات کی روشنی میں مرتب کیا گیا تھا لیکن حماس کے ترجمان نے اس کے بعد آ کر اعلان کر دیا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ زندہ ہیں۔وہ القسام کی قیادت کر رہے ہیں اور اس نے چیلنج کیا ہے کہ ’’محمد الضیف‘‘ ہی القسام کے وہ کمانڈر ہیں جو القدس کو فتح کریں گے( ان شاء اللہ) اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے پاس ایک بار پھر ناکامی کے ساتھ سر جھکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔اسلام کا یہ عظیم مجاہد اور غزہ کا شیر اس مقام اور مرتبے کو پہنچنے میں زندگی کے جن کٹھن مراحل سے گذرا ہے یہ کافی سبق آموز داستان ہے 1 Share this post Link to post Share on other sites
shy 468 Posted October 14, 2014 bohot zabardst tehreer hai...bas qadri ko beech mein nahi lana chahiye tha Share this post Link to post Share on other sites