Jump to content
CooLYar Forums - A Friendly Community by CooLYar
Hoorainraza

خوبصورت اق&#1578

Recommended Posts

السلام علیکم

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ پڑھتے ہوئے کوئی ایسی بات آپ کے سامنے آ جاتی ہے جو بڑی دیر تک آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔۔ یہاں پر میں کچھ ایسے ہی خوبصورت اقتباسات شئیر کروں گی آپ سب کے ساتھ۔۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

جب نصیب کا ہارا ڈوب جاتا ھے تو کوئ عمل کام نھیں آتا۔

محبت تو امربیل ھے۔ جس درخت پر یہ چڑھ جاتی ھے وہ پیڑ سوکھ جاتا ھے اور درخت ایک دن آپی آپ گر جاتا ھے۔۔۔۔۔ محبت کی امربیل میں کبھی کسم کے پھول نھیں لگتے۔ اس بیل میں تو ہمیشہ ہائ سنتھ کے شگوفے کھٍلتے ھیں۔۔۔۔۔ پشیمانی کے ارغوانی پھول۔۔۔۔۔۔ تاسف کے آسمانی پھول۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

میں نے بار ہا اس موضوع پر غور کیا کہ

“موت“ کیا ہے؟

اس سے زندگی کا کیا رشتہ ہے؟

ایک دفعہ میں‌نے ایک سمندری جہاز دیکھا، جب وہ ساحل سے دور ہوا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں نے کہا کہ “چلا گیا“۔ میں نے سوچا دور ایک بندر گاہ ہو گی، وہاں یہی جہاز دیکھ کر لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ “آ گیا“

شاید اسی کا نام موت ہے، ایک پرانی زندگی کا خاتمہ اور نئی زندگی کی ابتداء۔۔۔

خلیل جبران

Share this post


Link to post
Share on other sites

اختر عباس کی باتوں سے اقتباس

آج کا ظلم اور زیادتی کل مر بھی جائے تو اس کا درد نہیں مرے گا۔۔ وہ ظلم کرنے والی قوم اور گروہ کو مارنے کے لیئے باقی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔

رزق ہی نہیں کچھ کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔۔۔

صبر کا گھونٹ دوسروں کو پلانا آسان ہے خود پیتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ ایک ایک قطرہ پینا کتنا بھاری پڑتا ہے۔۔۔۔۔

دھمکیوں سے لوگ کبھی اچھے نہیں بنتے‘ تبدیلی محبت کی زمین میں اُگتی ہے۔۔ دل کی آمادگی کے ساتھ پھل پھول دیتی ہے۔۔ انسان کمپیوٹر کے کی بورڈ نہیں ہوتے کہ جب جو جی چاہا ٹائپ کرلیا۔۔۔۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

جسم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ زندہ رہنے والی چیز تو روح ہے۔ ۔ ۔ اگر زندگی میں۔ ۔۔ کبھی دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو۔ ۔ ۔ جسم کو کبھی بھی اولیت مت دینا۔ ۔ ۔ کیونکہ اس پر لگے داغ اور اذیت کے تمام نشانات کبھی نہ کبھی مٹ ہی جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن روح کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اس پر لگے داغ مٹانے سے اور زیادہ داغدار ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اذیت کے نشانات زخم بن کر دل میں چھبتے رہتے ہیں اور زندگی عذاب مسلسل بن جاتی ہے۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

mind blowing buhat achi aur sachi baatein likhi hai apne

gd

ap k aur posting ka intizar rahe ga :yes: :yes:

Share this post


Link to post
Share on other sites

v nice sharing

keep posting :clap: :clap:

Share this post


Link to post
Share on other sites

Excellent Topic and Good shareing..!

yahan per main her wo bat ya manzar share keron ga jo mujhay acha laga ho..!

So the 1st here

kal main Train say safer ker raha tha k dekha abhi b logon main insani haqooq or tawun ka jazba hai.. Dekh ker dil bhout khush howa.. Allah Sub k dilon say nafraton ke ag nikal day or sub main jazba-e-insani pesa hoo jay...

Share this post


Link to post
Share on other sites

زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آجاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتاہے۔ کوئی ماں باپ،کوئی بہن بھائی کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتاہے کہ ہمارے پاؤں کے نیچے نہ زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان،بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلامیں تھامے ہوئے ہے۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک زرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یانہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیزپر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

کہتے ھیں کہ محبت اور عداوت کبھی پوشیدہ نہیں رہتی ۔۔۔ لیکن اس دھرتی پر ایسے لوگ بھی بستے ھیں جن کی محبتیں ادھوری ھیں ۔۔جن کے نصیبوں میں تنہائیاں لکھی ھوتی ھیں ۔۔۔۔جنھیں اپنے پیاروں کی رفاقت ان کا سنگ کبھی نصیب نہیں ھوتا جو دوسروں کے نام پر اپنی گمنام زندگی بسر کردیتے ھیں ان کے ہر غم کو سینے سے لگاکر رکھتے ھیں ان کا ظلم وستم ہنس کر جھیلتے ھیں لیکن کبھی آہیں نہیں بڑھتے ۔۔یہ لوگ کبھی اپنی محبتوں کا صلہ نہیں مانگتے کبھی کسی پر اپنی محبت کا روگ آشکار نہیں کرتے کبھی کسی کے سامنے اپنی قسمت کا رونا نہیں روتے نہ جانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ھیں لیکن پھر بھی لوگوں سے ہنسی خوشی ملتے ھیں اور وقت کو دھوکہ دیتے ھیں پھر "خاموش محبت" کے یہ پہر ھوکر لبوں پر خاموشی لیئے اس دارفانی سے کوچ کرجاتے ھیں

Share this post


Link to post
Share on other sites

زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آجاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتاہے۔ کوئی ماں باپ،کوئی بہن بھائی کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتاہے کہ ہمارے پاؤں کے نیچے نہ زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان،بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلامیں تھامے ہوئے ہے۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک زرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یانہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیزپر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

Very nice hoorain kia bat hay ap k

Share this post


Link to post
Share on other sites

کہتے ھیں کہ محبت اور عداوت کبھی پوشیدہ نہیں رہتی ۔۔۔ لیکن اس دھرتی پر ایسے لوگ بھی بستے ھیں جن کی محبتیں ادھوری ھیں ۔۔جن کے نصیبوں میں تنہائیاں لکھی ھوتی ھیں ۔۔۔۔جنھیں اپنے پیاروں کی رفاقت ان کا سنگ کبھی نصیب نہیں ھوتا جو دوسروں کے نام پر اپنی گمنام زندگی بسر کردیتے ھیں ان کے ہر غم کو سینے سے لگاکر رکھتے ھیں ان کا ظلم وستم ہنس کر جھیلتے ھیں لیکن کبھی آہیں نہیں بڑھتے ۔۔یہ لوگ کبھی اپنی محبتوں کا صلہ نہیں مانگتے کبھی کسی پر اپنی محبت کا روگ آشکار نہیں کرتے کبھی کسی کے سامنے اپنی قسمت کا رونا نہیں روتے نہ جانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ھیں لیکن پھر بھی لوگوں سے ہنسی خوشی ملتے ھیں اور وقت کو دھوکہ دیتے ھیں پھر "خاموش محبت" کے یہ پہر ھوکر لبوں پر خاموشی لیئے اس دارفانی سے کوچ کرجاتے ھیں

Share this post


Link to post
Share on other sites

قابل غور۔۔

کہتے ہیں ایک شخص ایک عقلمند کے پیچھے سات سو میل' سات باتیں دریافت کرنے کے واشطے گیا۔۔ جب وہاں پہنچا تو کہا۔۔

ًمیں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں ۔۔"

- آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟

-زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟

-پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟

-کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟

- کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟

-کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟

-یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟

عقلمند نے جواب دیا۔۔۔

ًبے گناہ پر بہتان لگانا آسمانوں سے زیادہ بھاری ہے ۔۔ اور حق زمین سے زیادہ وسیع ہے اور کافر کا دل پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔۔حرص و حسد آگ سے زیادہ جلائے جانے والی ہیں اور رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونازمہریر سے زیادہ سرد ہے ۔۔قانع کا دل سمندر سے زیادہ غنی ہے اور چغل خور کی حالت یتیم سےبدتر ہوتی ہے ۔۔۔"

از مکاشفتہ القلوب

Share this post


Link to post
Share on other sites

مرد ھر بازی دماغ سے کھیلتا ھے کبھی کبھار کوئی ایک بازی ایسی ھوتی ھے جسے وہ دل سے کھیلتا ھے ۔ اورجس بازی کو وہ دل سے کھیلتا ھے اس میں مات کبھی نہیں کھاتا کیونکہ وہ بازی انا کی بازی ھوتی ھے ۔

عورت ھر بازی دل سے کھیلتی ھے مگر کبھی کبھار کوئی ایک بازی ایسی ھوتی ھے جسے وہ دماغ سے کھیلتی ھے اور اس وقت کم ازکم اس بازی میں کوئی اس کے سامنے کھڑا رہ سکتا ھے نہ اسے چت کر سکتا ھے اور وہ بازی بقا کی بازی ھوتی ھے ۔

مات ھونے تک

Share this post


Link to post
Share on other sites

wow very nice sharing keep sharing more

Share this post


Link to post
Share on other sites

زندگی میں کئ موڑ آتے ہیں ، جب انسان خود سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے ، اور اس میں کوئی گمان کی بات نہیں کہ اکثر انسان کے نفس سے بڑا استاد کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔

ایسے ہی ایک لمحے میں ، میں نے “ خود“ سے ایک بات سیکھ لی ۔ کہنے کو چھوٹی ہے مگر جب اس پر عمل کیا تو وہ بہت اچھی لگی ۔

غصے میں بڑے بڑے عقلمند انسان ایسی ایسی بےوقوف حرکتیں اور باتیں کر جاتے ہیں کہ اکثر سننے والا حیران اور پریشان رہ جاتا ہے ،اصل میں “ غصہ “ شیطان کا من پسند جذ بہ ہے اور اس حالت میں وہ انسان کو جتنا بڑھکا سکتا ہے اور کسی حالت میں نہیں بڑھکا سکتا ۔ تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سب جو کہنے کا نہیں ہوتا وہ بھی زبان سے نکل جاتا ہے ، اور اس سے آگے بھی اکثر جو کرنے کا نہیں ہوتا وہ اس سے سرزد ہو جاتا ہے ۔۔۔ اور سونے پر سہاگا بہت سے لوگ اپنے کیے پر زرہ برابر پچھتاتے بھی نہیں ۔ نہ ہی شرمندگی ان کو چھو کر گزرتی ہے ۔۔۔۔

خیر

ایسے ہی ایک لمحے میں ایک بار میں نے عجیب حرکت کی بلکہ کہہ لیں کہ مجھ سے ہو گئی ، ورنہ مجھ ناچیز کی کیا مجال ۔۔۔ہوا یوں کہ کسی کی سخت بات سن کر میرے دل میں ڈھیر ساری باتیں آگیئں جو میں نے جواب میں کہنے کو سوچیں ، لیکن پھر اگلے ہی لمحے نا جانے کیا ہوا کہ میں نے دل کی بات دل میں ہی دفن کر دی۔ اور زبان کو سمجھا یا کہ آج نہیں پھر کبھی یہ سب کہ لینا ۔۔۔ شیطان صاحب کو ناگوار تو بہت گزرا لیکن “ پھر سہی “ پر وہ مطمئن ہو گیا ۔

اس چھوٹی سی حرکت کا لطف اس قدر تھا کہ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اکثر و بیشتر جب بھی رب تعالی توفیق دے دیتا ہے “ پھر سہی ‘ کہہ کر بات ٹال دیتا ہوں ۔۔۔ وہ لمحہ جان بوجھ کر ہاتھ سے گنوا دیتا ہوں ۔ شیطان صاحب بعد میں افسوس بھی کرواتے ہیں اور یاد بھی کہ کچھ کہہ ہی دیتا تو کیا تھا ۔۔۔ کچھ سنائی میں بھی کر دیتا تو اچھا ہو تا ۔۔۔ اور یہ کہ اگلے کی ایسی دل آزاری کے بدلے میں کچھ تو میرا حق ہے ہی کہ کھری کھری سنا دیتا ۔۔۔

مگر ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میں نے جانا کہ یہ کام بہت آسان ہے ۔۔۔ ادلے کا بدلہ لینا آسان ہے ،،، اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بہت آسان ہے ۔۔۔ ہر کوئی بڑی آسانی سے کر لیتا ہے کیونکہ شیطان صاحب جو ہوتے ہیں اس وقت ہمارے استاد ۔۔۔۔

تو کیوں نہ کبھی مشکل کام کیا جائے ۔۔۔ کبھی کسی پل جہاں بولنے کا حق ہو ، وہاں خاموش ہو جایا جائے ، جہاں کچھ الفاظ زبان کی نوک تک آجایئں ۔۔۔۔ ان کو “ ہولڈ “ کر لیا جائے ۔اور پھر کبھی سہی کہہ کر ٹال دیے جایئں ۔۔۔

اس ایک چھوٹے سے کام کا کبھی آپ تجربہ کریں ۔۔۔ شیطان کو “ ہولڈ “ پر رکھ دیں ۔۔۔ “ پھر کبھی سہی “ کا لارا لگا کر بہلا دیں ۔۔۔ بالکل جیسے چھوٹے بچے کی بے کار سی ضد کے لئے کیا جاتا ہے ۔۔۔ “ آج نہیں ۔۔۔کل سہی “ کہہ کر تھپکی دے کر ٹال دیں ۔۔۔۔ اور جب ایسی کئی تھپکیاں جمع ہو جایئں تو ۔۔۔۔۔۔

پھر آپ دیکھیں گے ایک تبدیلی اپنے نفس میں اپنے بیان میں ۔۔۔ الفاظ کو زبان کے نیچے دفن کرنے کی طاقت کا اختیار ۔۔۔ وہ الفاظ جو سننے والے کے لئے ۔۔۔ زہر سے زیادہ تکلیف دہ ہو سکتے ہیں ، جن کا “ کبھی “ نہ کہنا ہی ضروری ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ الفاظ جو سوچ کی پرواز سے بھی آگے نکلنے لگیں ،،، اور جن کے ادا ہو جانے پر سوائے شکست کے کچھ ہاتھ نہ آئے ۔۔۔۔ جو دکھ کا منبع بننے لگیں ۔۔۔ جن میں ذرہ

برابر انسانیت نہ رہے ، جن میں صرف خود غرضی ہو ، اور محبت کا شائبہ تک نہ ہو ۔۔۔۔۔۔

ایسے الفاظ ۔۔۔ صرف “ ہولڈ “ پر رکھنے کے لائق ہیں ، ان

کو کیوں نہ ہولڈ پر ہی رہنے دیا جائے ، آج ، کل اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

انسان کا دل کہنے کو تو بہت چھوٹی سی چیز ہے، لیکن اس چھوٹی سی چیز میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے۔

اگر انسان کسی دوسرے انسان سے دل کا حال جان لے تو پتا نہیں کیا ہو جائے۔ اس دل پر کتنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ غم کو چھپائے رکھنا، درد کو چھپائے رکھنا، خواہشوں، کسی کی محبت، اپنے جذبات اور اپنی آرزوؤں کو چھپائے رکھنا۔

سمندر میں آنے والے طوفان کا سب کو پتا ہوتا ہے لیکن یہ دل کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر کے طوفان کو چھپائے رکھے۔ یہ چھوٹے سے دل کی ہی ہمت ہے کہ وہ طوفان کو بھی چھپا لیتا ہے تو پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ چھوٹی سی چیز ہے۔ دل تو بہت بڑی چیز ہے۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

v nice Hoorain....

ye dunia hy yhaan kch b alag nhi hota....

jo loug hme bzahir mukhtalif nzr aaty haen ,,

wohi hmary liye bra aazaab laaty haen,,,

oar tb hme pta chlta hy k wo kitny mamooli oar aam hoty haen,,,

oar shayid be-qeemat b,,,,,,,,,

Share this post


Link to post
Share on other sites

محبت

(دل دریا سمندر، واصف علی واصف)

دراصل محبت ، آرزوئے قربِ حسن کا نام ہے۔ ہم ہمہ وقت جس کے قریب رہنا چاہتے ہیں، وہی محبوب ہے۔ محبوب ہر حال میں حسین ہوتا ہے۔ کیونکہ حسن تو دیکھنے والے کا اپنا انداز نظر ہے۔ ہم جس زات کی بقا کے لیے اپنی زات کی فنا تک بھی گوارا کرتے ہیں، وہی محبوب ہے۔

محب اور محبوب میں خامی نظر نہیں آتی۔ اگر نظر آئے تو محسوس نہیں ہوتی۔ محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی۔محبوب کی ہر ادا دلبری ہے یہاں تک کہ اس کا ستم بھی کرم ہے۔ اس کی وفا بھی پر لطف اور جفا بھی پر کشش۔ محبوب کی جفا کسی محب کو ترک وفا پر مجبور نہیں کرتی۔ دراصل وفا ہوتی ہی بے وفا کے لیے ہے۔ محبوب کی راہ میں انسان معذوری و مجبوری کا اظہار نہیں کرتا۔ محبوب کی پسند و ناپسند محب کی پسند و ناپسند بن کے رہ جاتی ہے۔ محبت کرنے والے جدائی کے علاوہ کسی اور قیامت کے قائل نہیں ہوتے۔

محبت اشتہائے نفس اور تسکین وجود کا نام نہیں۔ اہل ہوس کی سائیکی اور ہے، اہل دل کا انداز فکر اور۔ محبت دو روحوں کے نہ ختم ہونے والی باہمی پرواز ہے۔

محبت کے لیے کوئی خاص عمر مقرر نہیں۔ محبت زندگی کے کسی دور میں بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان کو پوری زندگی میں بھی محبت سے آشنا ہونے کا موقع نہ ملے۔ سوز دل پروانہ کسی مگس کے نصیب میں نہیں ہوتا۔

عقیدوں اور نظریات سے محبت نہیں ہو سکتی۔ محبت انسان سے ہوتی ہے۔ اگر پیغمبر سے محبت نہ ہو، تو خدا سے محبت یا اسلام سے محبت نہیں ہو سکتی۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

insaan k andr mout ka silsila jaari rehta hy,,,, insaan 1 baar nhi mrta,,,,

oar saansun ka toot jana jisy sb mout kehty haen,,, wo un sb deaths ka elaan hoti hay

jo na jaany kb sy insaan k andr ho rhi hoti haen,,,,

Share this post


Link to post
Share on other sites

عورتوں کے پانچ سوال - ذراہٹ کے

ایک جریدے میں شائع ہونے والے سروے کے مطابق خواتین ، مردوں سے اپنے بارے میں جو مشکل ترین سوالات پوچھتی ہیں ، وہ کم و بیش دنیا بھر میں یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان سوالات کی تعداد پانچ ہے اور وہ کچھ اس طرح ہیں:

1) تم اس وقت کیا سوچ رہے ہو؟2) کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟3) کیا میں موٹی لگتی ہوں؟4) کیا تمہارے خیال میں ”وہ“ مجھ سے زیادہ خوب صورت ہے ؟5) اگر میں مر گئی تو تم کیا کرو گے؟

ان سوالات کی مشکل یہ ہے کہ اگر کسی مرد نے ان میں سے کسی کا بھی غلط جواب دے دیا ، یعنی اگر سچ بول دیا، تو پھر اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم نے مردوں کی فلاح و بہبود کی خاطر ان سوالات کے ممکنہ جوابات تلاش کیے ہیں، تاکہ ان کا بھلا ہو سکے۔

پہلے سوال ”تم اس وقت کیا سوچ رہے ہو؟“ کا نہایت سیدھا سادہ اور گھڑا گھڑایا جواب دیں کہ ”ظاہر ہے میں ہر وقت کی طرح اس وقت بھی دنیا کی سب سے وفا دارعورت کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور وہ تم ہو۔ میری خوش قسمتی ہے کہ تم میری زندگی میں آئیں، ورنہ میں کسی آوارہ بھنورے کی طرح بھٹکتا رہتا، وغیرہ۔“

دوسرا سوال ”کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے ؟“ کا جواب احتیاط سے دیں، کیوں کہ بظاہر آسان لگنے والا یہ سوال کافی خطرناک ہے ۔ممکن ہے بعض لوگ یہ سمجھیں کہ اس قسم کا سوال ”روٹین کی کارروائی “ ہوتاہے اور اس کا جواب ٹی وی دیکھتے یا اخبار پڑھتے ہوئے محض اثبات میں سر ہلا کر دینا کافی ہے، لیکن یہ ان کی بھول ہے ۔ایسے مردوں کو اگر میری اس بات سے اختلاف ہے تو وہ بے شک سر ہلا کر اس سوال کا جواب دے کر دیکھ لیں اورپھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

تیسرا سوال ” کیا میں موٹی لگتی ہوں؟“ اپنے اندر سوالات کا ایک جہان لیے ہوئے ہے۔ یہ دراصل ایک سوال نہیں، بلکہ مختلف سوالات اور خدشات کا اظہار ہے ۔کچھ ناعاقبت اندیش مرد اس سوال کے جواب میں خاتون کا موازنہ کسی فربہ اندام عورت کے ساتھ شروع کر دیتے ہیں اور پھر اپنے تئیں تعریفی انداز میں اسے یہ کہہ کرمطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”اس کے مقابلے میں تو تم کافی حد تک اسمارٹ ہو۔“شاید ایسے مردوں کو اپنی جان پیاری نہیں ہوتی!

چوتھا سوال ”کیا وہ مجھ سے زیادہ خوب صورت ہے ؟“ بھی ایک نازک سوال ہے، جس کا جواب احتیاط سے دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ”میں نے تمہارے سوا کبھی کسی کو نظر اٹھا کر دیکھا ہی نہیں “ یا یہ کہ” میں کسی ”وہ“ کو نہیں جانتا۔“ خیال رہے کہ اس سوال کا جواب دیتے وقت اگر آپ نے بھولے سے بھی اپنے ذہن پر ایسے زور ڈالا، جیسے کسی کا سراپا یاد کر نے کی کوشش کر رہے ہوں، تو یقین جانئے آپ کی آنے والی نسلیں بھی پچھتائیں گی۔

اب آتے ہیں آخری سوال کی طرف کہ ”اگر میں مر گئی تو تم کیا کرو گے؟“ یہ سوال اس لحاظ سے سب سے دل چسپ اور مشکل ہے کہ اس کا کوئی بھی جواب خاتون کو مطمئن نہیں کر سکتا ۔مثلاً اگر آپ نے سنجیدگی سے اپنے ان منصوبوں پر روشنی ڈالنی شروع کر دی، جنہیں آپ خاتون کی وفات کے بعد پایہٴ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں، توکوئی بعید نہیں کہ آپ کی وفات پہلے ہوجائے…یعنی اس خاتون سے بھی پہلے!

یہاں میرا فرض بنتا ہے کہ عورتوں کو بھی مردوں کی خصلت کے بارے میں آگاہ کردوں، تاکہ وہ آنکھیں بند کر کے ان تمام سوالات کے جوابات پر اعتبار نہ کر لیں۔ مثلاً اگر مرد پہلے سوال کا جواب گڑبڑا کر دے تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور اگر وہ پورے اعتماد کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب دے تو جان لیں کہ وہ بہت چالاک ہے ، ایسے مرد سے ہو شیار رہیں۔ اسی طرح اگر دوسرے سوال کا جواب سپاٹ لہجے میں ملے تو سمجھ جائیں کہ اسے آپ سے کوئی محبت نہیں اور اگر مرد جذباتی انداز میں جواب دے تو سمجھیں کہ اوور ایکٹنگ کر رہا ہے۔ موٹاپے سے متعلق سوال کے جواب کو بھی دھیان سے سنیں، اگر مرد کھٹ سے جواب دے کہ بالکل موٹی نہیں لگ رہی تو اس کا مطلب ہے اس کا دماغ کہیں اور ہے اور اس نے آپ کو محض ٹرخا دیا ہے۔ ویسے اپنے سراپے پر خود ایک نظر ڈالنے سے بھی اس سوال کا صحیح جواب مل سکتا ہے۔ چوتھے سوال کا جواب بہت غور سے سنیں، اگر مرد زیادہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہے کہ ”کون“ تو کھٹک جائیں اور اگر وہ سنی ان سنی کر دے، تو مزید کھٹک جائیں اوراگر وہ یہ جواب دے کہ ”نہیں، وہ تم سے زیادہ خوب صورت نہیں “ تو پھر سمجھ جائیں کہ ”وہ“ آپ سے زیادہ ہی خوب صورت ہے !آخری سوال کا جواب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، اگر مرد ا س کا جواب مذاق میں ٹالنے کی کوشش کرے تو جان لیں کہ اس نے واقعی آپ کی وفات کے بعد کوئی پلاننگ کر رکھی ہے اور اگر وہ سنجیدگی سے اس کا جواب دے تو پھر آپ کے لمحہٴ فکریہ ہ

Share this post


Link to post
Share on other sites

محبت اور تنہائی،

نجانے جب محبتیں فنا ہوجاتی ہیں،بچھڑجاتی ہیں تو اپنے پیچھے خوش فہمیاں کیوں چھوڑجاتی ہیں، دل ہر آن ایک ہی دھن میں لگارہتا ہے کہ وہ ہمیں مل جاۓ گا، ہماراپھر سے ساتھ چاہے گا حالانکہ جدائیوں کے راستے تو بہت طویل ہوتے ہیں-جانے والےکبھی لوٹ کر نہیں آتے جو اس نے ملنا ہوتا تو بچھڑتا ہی کیوں؟

اگر تم تنہاہو اور وقت کے دل شکن لمحات تمھارے محسوسات کو پامال کررہے ہیں تو کیاہوا!

تم اس دنیا میں اکیلے آۓ تھے، اکیلے ہی جاؤ گے، جب قدرت نے تمھیں اکیلا ہی تخلیق کیا تھا تو پھر تنہائی سے کیا گھبرانا-

از خلیل جبران

Share this post


Link to post
Share on other sites

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now

×

Important Information

We have placed cookies on your device to help make this website better. You can adjust your cookie settings, otherwise we'll assume you're okay to continue.