Jump to content
CooLYar Forums - A Friendly Community by CooLYar
Sign in to follow this  
sho_shweet

Idher Udher Sy...

Recommended Posts

دسمبر کی ایک صبح، اس نے اپنے آپ سے سوال کیا: "خدا کو کیسے یاد کیا جاتا ہے؟"

تو منظر تحلیل نہ ہوا ،ذہن لاجواب نہ ہوا، اس نے سوچا، "خدا سے مدد مانگنا ہی اسے یاد کرنا ہے. " ہیلپ می گاڈ "

...

یہ تین لفظ اس نے کتنی بار دہراے ،اسے نہیں یاد . بس یاد ہے تو... اتنا کہ جب تک جاگتی "ہیلپ می گاڈ" کے الفاظ دہراتی چلی جاتی. جب سو جاتی تو اس کا دل دہراتا رہتا.

مارچ کی اس صبح میڈیکل سائنس کی دنیا دھماکے سے لرز اٹھی. سینٹ لوئس کے اس ہسپتال نے کیتھرائن کو مکمل طور پر صحت یاب قرار دے دیا. کینسر کی ایسی مریضہ جو تین ماہ سے موت کی طرف بھا گ رہی تھی اور جو امید کھو چکی تھی،

الوداع کہنے سے پہلے کیتھ نے امریکی ڈاکٹروں کو صحت کا نسخہ بتا دیا. "ہیلپ می گاڈ"

ڈاکٹروں نے حیرت سے پوچھا: " وٹ ڈو یو مین" کیتھ نے بتایا: " جب اس نے ان تین لفظوں کا ورد شروع کیا تو سب سے پہلے اس کا درد ختم ہوا، پھر زخم پر کھرنڈ اترے اور آخر میں ایک نئی اور صحتمند جلد نے زخم کے نشان تک مٹا دِیے

.

کیتھ کے اس کیس نے میڈیکل سائنس کو نئی "ڈای مینشن " دے دی، پورے امریکا میں سروے کیا گیا، پتا چلا، خدا پر مظبوط یقین رکھنے والے مریض "نان بلیورز " کے مقابلے میں جلد صحت یاب ہوتے ہیں.

Edited by sho_shweet

Share this post


Link to post
Share on other sites

very nice.....

Share this post


Link to post
Share on other sites

:زبان کے لگائے ہوئے زخم

------------------------------

کسی جگہ ایک لڑکا رہتا تھا، انتہائی اکھڑ مزاج اور غصے سے بھرا رہنے والا، اُسے راضی کرنا تو آسان کام تھا ہی نہیں۔

ایک دن اُس کے باپ نے ایک تھیلی میں کچھ کیل ڈال کر اُسے دیئے کہ آئندہ جب بھی تم اپنے آپے سے باہر ہو جاؤ یا کسی سے اختلافِ رائے ہو جائے تو گھر کے باغیچے کی دیوار پر جا کر ایک کیل گاڑ دیا کرو۔

لڑکے نے پہلے دن باغیچے کی دیوار پر 37 کیل گاڑے۔ لیکن اگلے دن سے اُس نے بار بار باغیچے میں جا کر دیوار پر کیل ٹھونکنے کی بجائے اپنے آپ پر کنٹرول کرنا سیکھنا شروع کر دیا اور روزانہ دیوار میں گاڑے جانے والے کیلوں کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ ایک دن اُس نے ایک بھی کیل دیوار میں نہ گاڑا۔ شام کو لڑکے نے باپ کو خوشی سے بتایا کہ اُس نے آج ایک بھی کیل دیوار میں گاڑنے کیلئے استعمال نہیں کیا۔

باپ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُس سے کہا، ٹھیک ہے مگر آج سے تُم ایک اور کام کرو۔ جس سارے دن میں تُم اپنے آپ پر مکمل کنٹرول رکھ لو اُس دن جا کر دیوار سے ایک کیل واپس نکال لیا کرنا۔

اس کام میں بہت سے دن تو لگے مگر آخر کار وہ دن آن ہی پہنچا جب لڑکا دیوار سے سارے کیل واپس باہر کھینچ چکا تھا۔

باپ لڑکے کا ہاتھ پکڑ ے اُسے باغیچے کی دیوار کے پاس لے کر گیا اور کہا: بیٹے، بے شک تم نے اس عرصہ میں اپنے غصے اور مزاج پر قابو پا کر بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ مگر اس دیوار کو دیکھو، جس پر کیلوں کے گاڑنے اور اکھاڑنے سے پڑنے والے بد نما نشانات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہ گئے ہیں۔ اور یہ دیوار اب دوبارہ کبھی بھی ویسی نہ ہو سکے گی جس طرح کہ پہلے تھی۔

بالکل اسی طرح جب تم اپنے معاملات میں دوسروں سے اختلاف رائے کے دوران یا غصے کی حالت میں تُند و تیز باتیں ، طعن و تشیع یا بد زبانی کرتے ہو تو اُن پر بالکل ایسے ہی گہرے اور برے اثرات چھوڑ رہے ہوتے ہو جس طرح تمہارے ٹھونکے اور اُکھاڑے ہوئے کیلوں نے اس دیوار پر چھوڑے ہیں۔ تم چاہو تو خنجر کسی کے پیٹ میں گھونپ دو۔ خنجر باہرنکال لیا جائے گا، خنجر سے لگا ہوا زخم مندمل ہو جائےگا، تمہاری معافی اور التجا سے اُس شخص کے ساتھ تمہارے تعلقات بھی دوبارہ راست پر آ جائیں گے مگر خنجر کے زخم کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں گے۔

زبان کے لگے ہوئے زخم تو خنجر کے لگے ہوئے زخموں سے بھی زیادہ دلوں پر گہرے اثرات رکھتے ہیں۔ دوست نایاب ہیروں اور بیش قیمت جواہرات کی مانند ہوتے ہیں، تمہارے دُکھ اور سکھ میں شامل ہونے کو ہر دم تیار، تمہاری ہر بات کو سننے اور ماننے کو تیار، اپنے دلوں کے دروں کو وا کیئے ہوئے اور تمہیں اپنے دل میں سمو لینے کیلئے تیار۔

بہتر ہے کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھنا کہ اس کے لگائے ہوئے گھاؤ مندمل نہیں ہونگے

Share this post


Link to post
Share on other sites

اماں بھائی کب مرے گا؟

عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ خانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی "تلاش" کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچوں کی دکان پڑ جا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔

ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بکھر میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہی تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی

"اماں بھائی کب مرے گا؟"

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا "میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟"

بچی معصومیت سے بولی

"ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!"

اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔

غالبا منٹو نے لکھا ہے کہ

ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آ گیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی انے کچھ نہی دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پتہ پر پڑ گیا۔ صبح آ کر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب "اہل ایمان" کا "جذبہ ایمانی" بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھا دی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا "ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تھ یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"۔

پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر دس لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑھائی، جب کہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوں نے قمیض پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیض نہی۔ حضرت مجدد الف ثانی فرمایا کرتے تھے کہ تم جو چادریں قبر پڑ چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حقدار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نا ہوئی، تنگ آ کر اس نے خود سوزی کر لی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پڑ قبضہ ہو گیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کو تیار نہی ہوا، اسی دوران دفتر کی سیرین چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد آ کر رہے گا؟

کیا ہمارا "جذبہ ایمانی" صرف مردوں کے لیے رہ گیا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود زندوں کا خیال رکھیے۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

ڈنمارک میں روزہ 21 گھنٹہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارجنٹائنا میں 9 گھنٹہ کا

روس کے شہر ' مورمانسک ' میں سورج کی روشنی میں ہی ۔۔ سحر و افطار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یورپی ملک ڈنمارک میں موجود مسلمان اس سال 21 گھنٹہ کا طویل روزہ رکھیں گے جبکہ دوسری جانب بر اعظم جنوبی امریکہ کے ملک ارجنٹائنا میں محض ساڑھے نو گھنٹہ کا روزہ ہوگا ۔

شمالی روس کا شہر ' مورمانسک ' اس اعتبار سے اپنی انفرادیت رکھتا ہے جہاں طلوع و غروب آفتاب کا کوئ تصور نہیں ہے ۔ وہاں کے مسلمان سورج کی روشنی میں ہی سحر و افطار کا اہتمام کریں گے ۔ علما و فقہا نے

انہیں ایسا کرنے کی اجازت دی ہے اور ان کے روزہ کا وقت 20 گھنٹہ پر محیط ہوگا۔

اس شہر میں گرمیوں میں دن رات کا فرق ختم ہو جاتا ہے ۔۔ جبکہ سردیوں میں دن سکڑ کر صرف 2 گھنٹہ کا رہ جاتا ہے اور سردیوں کے رمضان میں مسلمان صرف 2 گھنٹہ کا روزہ رکھتے ہیں۔

قطبی دائرے سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں 22 مئ سے 22 جولائ تک سورج کے طلوع و غروب کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور 24 گھنٹہ سورج کی گردش آنکھوں کے سامنے جاری رہتی ہے ۔ 22 جولائ کے بعد سورج زمین کی اوٹ میں آنا شروع ہوتا ہے اور سردیوں کے 2 مہینہ دسمبر اور جنوری میں رات پھیل کر 22 سے 23 گھنٹہ پر محیط ہوتی ہے ۔

ویب سائٹ ' آل کنٹریز ' کے مطابق اس سال کا رمضان گزشتہ 33 سال کا گرم ترین رمضان ہوگا

Share this post


Link to post
Share on other sites

نٹ کھٹ روزہ دار

بچپن میں ایک رمضان کی تپتی ہوئی دھوپ کا ذکر ہے کہ ہم روزے سے تھے اور اِفطار کی منزل ابھی دُور تھی۔ ہماری والدہ پاس بیٹھی چاول چُن رہی تھیں کہ بے خیالی میں ہم نے چاول کی ایک چُٹکی اُٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ والدہ نے چیخ کر ہمیں یاد دلا یا کہ ہمارا روزہ ہے۔ ہمیں بڑا افسوس ہُوا کہ کہیں ہمارا روزہ تو نہیں ٹوٹ گیا۔ پھِر اُنھوں نے اطمینان دِلایا کہ۔۔۔ "نہیں ! اگر بھُول سے کچھ کھا لِیا تو

روزہ نہیں ٹوٹتا"۔ یہ جان کر ہمیں پہلے سے بھی زیادہ افسوس ہُوا کہ کاش ہم بھُول سے پانی کا ایک بڑا سا گلاس پی گئے ہوتے۔ کوئی فرحت بخش شربت ہی منہ میں اُنڈیل گئے ہوتے۔ اُ س کے بعد ہم نے کئی روزے رکھے اور بہت کوشش کی کہ بھول جائیں۔ ایک لمحہ کے لئے ہی سہی مگربھول جائیںکہ ہمارا روزہ ہے۔ لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔

اُن دِنوں ہمیں کبھی کبھار محلے کی مسجد میں افطار کرنے کے مواقع بھی مِلتے۔ مسجد کی بالائی منزل پر چھوٹے بڑے تھالوں میں قسم قسم کے پکوان سجائے جاتے۔ افطار شروع ہوتے ہی بچے اُن پکوانوں کو تھالیوں کے باہر بھی سجا دیتے ۔ ہر بچہ پُو را پُورا۔۔۔اُن تھالیوںمیں بیٹھنے کی کوشش میں ہوتا ۔ کبھی کبھار دھکم دھکا میں کسی کی " پانچوں انگلیا ں تھالی میں ہوتیں اور سرلڑائی میں "۔ بڑے بچے جو عام طور پر اِس ہنگامی افطاری میں ماہر و مشاق ہوتے، وہ اپنے لئے جگہ ڈھیلی کرنے کی غرض سے ہمارے سرکی ٹوپی اُٹھا کر دور پھینک دیتے ۔ اور جب تک ٹوپی لے کر ہم واپس آتے تب تک "خالی "جگہ " پُر" ہوچُکی ہوتی اور تھال " پُر"سے" خالی"ہو چُکا ہوتا۔وہ تمام چیزیں ہر بچے کی دونوں مٹھیوں میں ہوتیں اور کچھ اُن کے پھُولے ہُوئے منہ میں ۔

یوں تو عام دِنوں میں مغرب کے بعد ہمارے گھر کے دروازے باہر جانے کے لئے ہم پر بند ہو جاتے۔ لیکن رمضان میں تراویح تک ہمیں 'دینی' چھوٹ مل جاتی۔تراویح میں اکثر یہ ہوتا کہ سجدے میں ہماری آنکھ لگ جاتی۔ ہم یہ سوچتے کہ کاش پوری تروایح سجدے میں ہوتیں۔تراویح میں امام صاحب تیزی سے سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد جو کچھ پڑھتے تھے اُس میں ہمیں " یعلموں " اور " تعلمون "کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے امام صاحب سے 'چھوٹی سی 'ہمت کر کے پوچھا بھی کہ وہ اتنی تیزی سے کیوں پڑھتے ہیں؟۔ تواُن کا جواب تھا کہ منتظمین نے آدھے گھنٹے میں تراویح ختم کرنے کی پابندی رکھی ہے۔ ہم نے کہا کہ " لوگوںکی سمجھ میں بھی توکچھ آنا چاہئے"۔

آہستہ پڑھنے پر بھی لوگوں کی سمجھ میں کیا آنے والا ہے !"

اِمام صاحب ہمیشہ اِسی طرح سرد آہ بھر کر اپنی بے اِختیاری کا اظہار کرتے۔

آخر رمضان گزر جاتا اور اپنی پوُری شرارتوں کے ساتھ ۔۔۔ ہم ایک نئے چاند ، ایک اور رمضان کے تصور میں گُم ہو جاتے۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں

از اشفاق احمد

Share this post


Link to post
Share on other sites

ا لسلا م علیکم

خود بیداری اور خود نگہداری کے لئے آج آپ کو ایک لقمان حکیم جیسا نسخہ عطا کرتے ہیں - ذرا غور سے سننا پھر ضرور استعمال کرنا -

آج کے بعد سے لوگ آپ کے ساتھ جو بھی سلوک کریں یا جو بھی رویہ اختیار کریں یا آپ کے بارے میں جو بھی کہیں ان کو ایسا کرنے دیں اور ان کی راہ میں حائل نہ ہوں -

ان کے رویےاور ان کی طبع میں نہ تو کوئی تبدیلی پیدا کریں اور نہ ہی ان پر اثر انداز ہوں ...............

نہ ہی ان کے کہنے اور کرنے پر نا خوشی کا اظہار کریں نہ ہی نفرین کریں اور نہ ہی اس کا تذکرہ اوروں سے کریں اس موضوع پر زبان ہی نہ کھولیں -

اب یہ سب کیا ہے اور ایسا کیوں کیا جائے ؟

آزادی کے لیے ، شخصی آزادی کے لیے ، اور ذاتی خوشی کے لیے -

یہ ان کے عمل نہیں ہیں جو ہمیں مضطرب کرتے ہیں اور ہمیں وسوسوں میں گھیرتے ہیں بلکہ یہ ہماری اپنی غیر محفوظیت کا خوف ہوتا ہے -

insecurity کا اندیشہ ہوتا ہے اور اس بات کی طلب ہوتی ہے کہ وہ لوگ ہم کو حفاظت میں رکھیں اور سکون میں رکھیں اور جو کام ہم کر رہے ہیں اسے آرام سے کرنے دیں -

تو جناب ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ فرد خود میں تبدیلی پیدا کرے نہ کہ اپنے دوستوں عزیزوں ، رشتےداروں میں تبدیلیاں پیدا کرتا پھرے - اور ان کے دروازوں پر جا کر دبکے مارتا پھرے -

جب تم لوگوں کو من مانی کرنے دو ( ایسا وہ ہر حال میں کریں گے ) اور ان کی راہ کی رکاوٹ نہ بنو تو تمھارے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی رو نما ہوگی -

آپ پہلی مرتبہ دیکھیں گے کہ ان کے رویے پر آپ کا افسوس یا ان کے رویے پر آپ کی سرزنش , آپ کی بیچینی اور تردد کی سب سے بڑی وجہ ہے -

ان کو آپ کی بیچینی یا تردد سے کوئی واسطہ نہیں وہ اس کی بنیاد نہیں ہیں -

اس عمل کو بزرگان دین تلاوت وجود کے نام سے پکارتے ہیں اور اس کو وہ ارفع خود شناسی اور خود عملی کا نام دیتے ہیں -

از اشفاق احمد

Share this post


Link to post
Share on other sites

best novel n drama ever happy.png

Share this post


Link to post
Share on other sites

Actually i prefer to read rather thn watch .... Novel bht arsa pehlay parha tha

Still thy cnt mk it as the writer defines in novel but it was a quite a good try to mk it as a drama

Share this post


Link to post
Share on other sites

kisi ko itna pyaar do k koi gunjaaish na chorho ....

ager wo phir b tumhara na ban sky to us chorh do,,,

q k wo muhabbat ka talabgaar nhi bl k zrorat ka pujaari hy

muhabbat krny waly ko kisi cheez ki zrorat nhi hoti

oar zrorat mand ko kisi cheez sy muhabbat nhi hoti

  • Like 1

Share this post


Link to post
Share on other sites

جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں

جہاد کی جگہ جمود

حق کی جگہ حقایت کو مل جائے

ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو

اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے

اور

زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں یوں ہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔

Share this post


Link to post
Share on other sites

انسان اس دولت پر اتنا تکبر کیوں کرتا ہے جو اگر ہلال ھو تو حساب دینا پڑے گا۔ اور اگر حرام ھو تو عذاب سہنا پڑے گا۔

Why man is so proud on wealth, for which he is accountable if halal and will be punished if its haram

Share this post


Link to post
Share on other sites

Create an account or sign in to comment

You need to be a member in order to leave a comment

Create an account

Sign up for a new account in our community. It's easy!

Register a new account

Sign in

Already have an account? Sign in here.

Sign In Now
Sign in to follow this  

×

Important Information

We have placed cookies on your device to help make this website better. You can adjust your cookie settings, otherwise we'll assume you're okay to continue.